آئینی ترمیم اور قومی حکومت

حکومت اور نئے چیف جسٹس کو دلی مبارک باد۔ مفلوج ۔ محصور ۔ بیمار انداز سیاست ملک کو کِس طرف لیجا رہی ہے کِسی کو بھی رتی بھر اندازہ نہیں۔ حالانکہ عام آدمی سے اُوپر سطح کی تمام تر معلومات ”اہل سیاست“ کے پاس ہمہ وقت موجود ہوتی تھیں اور ہیں ۔ ملک گیر شٹ ڈاو¿ن کی دھمکی سیاسی طریقہ نہ پہلے تھی نہ اب ۔ یہ حرکات ماضی میں بھی نا پسندیدہ فعل گردانا جاتا تھا اب زیادہ سنگین ہے کیونکہ ملکی معاشی صورتحال سب کے سامنے عیاں ہے دوسری طرف بیرونی دنیا اور خطے میں لمحہ بہ لمحہ تبدیلی ہوتی تصویر یں آنے والے وقت میں ہماری کوئی بھی اچھی پوزیشن دکھانے سے قاصر ہیں۔ اُس طرف پالیسی سازوں کا رُخ ہونا ضروری تھا پر ؟؟ آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم کا بیان دلکش الفاظ کا مجموعہ تھا۔ دُعا ہے کہ ”ترمیم “ کے بعد نکلنے والا سورج ایسا ہو کہ ہمارے گھر چمک اُٹھیں ۔ روشنی سارے ملک میں اِس طرح پھیلے کہ ہم پر چھائے کالے بادل حقیقی معنوں میں چھٹ جائیں ۔ اب ایسے ہو کہ ”سورج“ عوام کے لیے بھی ”وٹامن ڈی“ والا کام کرے صرف تپش نہ پہنچائے۔ اِس موضوع پر پہلے زیادہ لکھنے کا ارادہ کیا مگر تب سے ”سموگ“ نے ہی سورج کو گہنا دیا۔ حکومت ۔ اتحادیوں کی خوشی دیدنی وہاں کچھ حلقوں کے مختلف النوع تبصرے ۔ حق۔ مخالفت میں سُننے کو بھی ملے ۔ ”ترمیم“ آئین میں ہوئی ہے بجلی ۔ گیس ۔ پانی کے بلوں میں نہیں اسلئیے اِس قدم سے کونسی معاشی ترقی ممکن ہے ۔ ترامیم کونسی نئی بات ہے ہوتی رہتی ہیں۔ دہائی قبل بھی صرف ”میری پسند“ والا فارمولا نافذ تھا۔ مگر کچھ سالوں سے یہ فارمولا طاقت سے زیادہ استعمال ہونا شروع ہو چکا ہے۔ ”میں“ اور سب صرف میرے وفادار۔ میری حکومت ۔ میری مرضی کے اہلکار (ہر شعبہ کے متعلق) عہدے ۔ تقرریاں ۔ تعنیاتیاں ۔ ترامیم ۔ فیصلے صرف ”میں“ کی سوچ کے تابع ۔ ایسا جمہوریت میں کِسی بھی صفحہ پر تحریر شدہ پڑھنے کو نہیں ملتا۔ 
سچ یہ ہے کہ نظام کِسی کا بھی ذاتی خدمتگار نہیں ہوتا ۔ ہمارے ملک میں نظام کو محصور کرنے ۔ خریدنے کی تاریخ اتنی بوسیدہ ہوچکی ہے کہ اب ہر طرف دیمک زدہ کیڑے رینگتے نظر آتے ہیں ۔ریموٹ کنٹرول سیاسی ورکرز ۔ آزادی اظہار رائے سے محروم ۔ صرف ”جی ہاں“ کہنے کے علاوہ زیرہ برابر طاقت نہیں رکھتے ۔ جمہوریت کے نام پر ووٹ لیکر آنے والے لوگوں کی اپنی جماعتوں میں جمہوریت نہیں طاقت کے بے محابا اکٹھ کی ہوس۔ لمحہ موجود کے حالات ۔ سیاسی حرکیات سے سیاسی انداز سے نمٹنے کی بجائے ذاتی عناد حب سے در آئی ہے۔ سیاست خونی دشمنیوں میں بدل گئی ۔ ”اپوزیشن“ ساتھ ہے بھی اور نہیں بھی ۔ ہر بندہ ۔ بندی لوٹوں والی سیاست سے بیزار ۔ نالاں ہے۔ ہر اِس ناسور کی بیخ کنی چاہتا ہے۔ (عوام کی حد تک کوئی شک نہیں) مگر تب جب وہ ”حزب اختلاف“ میں ہوتا ہے۔ آج ”میں“ کل کوئی اور ہوگا یہ آفاقی حقیقت ہے سچ ہے تو تلخ پر سچ یہی ہے کہ ”کُرسی“ اپنی جگہ نہیں بدلتی ”شخصیات“ بدلتی رہتی ہیں فی الوقت تو کوئی بھی سنجیدگی کے صفحہ پر آنے کو آمادہ نہیں ۔ بعض لوگ خاصے غصہ میں بولتے سُنے کہ موجودہ ”پی ٹی آئی“ اپنے ”بانی“ سے مخلص نہیں ۔ یہ لوگ ”بانی“ کی رہائی چاہتے ہی نہیں ۔ خیر یہ تو کچھ اِدھر ۔ اُدھر کی آراءتھیں ۔
”حکومت آزادانہ کام کرے “
واقعی یہ ضروری ہے کہ ہر حکومت کو آزادانہ ماحول ۔ پر سکون فضا میں کام کرنے کے مواقع میسر ہوں۔ دباو¿ ”اب گئی کہ اب گئی“ والے حالات میں تو اچھے خاصے ذہین و فطین لوگوں کی مت ماری جاتی ہے۔ ”پارلیمان“ اسلئیے زیادہ ”سپریم“ ہے کہ وہ عوامی تائید یعنی ووٹوں سے براہ راست منتخب ہو کر آتی ہے۔ ہر حکومت کی مدت کی تکمیل کی ترمیم میرے نزدیک زیادہ ضروری تھی۔ آئین اِس موضوع پر مکمل واضح ہے پر قانونی قیود عائد کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ گھیراو¿ ۔ توڑ پھوڑ ۔ ریلیاں ۔احتجاج۔ دھرنے ان کا تدارک ہونا چاہیے۔ مقررہ مدت کی تکمیل والی ترمیم ہو جائے تو پھر کبھی بھی ”آئین“ کے ساتھ کھلواڑ یا چھیڑ چھاڑ کرنے کی نوبت نہ آئے ۔ 
”قومی حکومت“
بہت دشوار معلوم ہو رہا ہے یہ لکھنا کہ حالات اب بہتری کی طرف جائیں گے ۔ کیونکہ بچپن سے اب تک حالات کی بہتری ۔ معاشی ترقی کے سیلاب ۔ عوامی خوشحالی کی فراٹے بھرتی نہریں صرف حکومتِ وقت اور سال بدلنے پر جوتشی حضرات سے سُنتے آرہے ہیں اسلئیے یہ ”چُورن“ اب بکنے والا نہیں ۔ زائد المعیاد ہو کر صرف زہر ناکی پیدا کر رہا ہے۔ قومی حکومت ہمارے تمام مسائل کا حتمی اور شافی علاج ہے درجن ہا بھر سے زائد طبع شدہ کالمز اِس کی تجویز سے لیکر تائید۔ فوائد۔ حل تک پر موجود ہیں۔ مشکل کیا ہے ؟؟سابقہ ادوار کی نسبت عصرِ نو میں اِس کا قیام زیادہ روشن ۔ قوی نظر آتا ہے ۔ بظاہر کل کے جانی دشمن آج ”اتحادیوں“ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں تو ”اپوزیشن“ کیوں نہیں مفاہمت کی طرف آجاتی ۔ سب ایک ہی چھت تلے اکٹھے بیٹھتے ۔ کھاتے پیتے ۔ گپ شپ لگاتے ہیں مراعات کے بلز پر ایک صفحہ پر کھڑے نظر آنے والے قومی مسائل پر سنجیدہ مذاکرات پر کیوں نہیں قائل ہو جاتے۔ کیا بہتر نہیں کہ پارلیمانی نمائیندگی رکھنے والی تمام جماعتوں پر مشتمل ”قومی حکومت “ تشکیل دیدی جائے ۔ سیاسی انتقام کے جاری تمام سلسلوں کو بند کر کے صرف اور صرف استحکام ۔ معاشی ترقی کے ایجنڈہ پر بیٹھ جائیں ۔ ہر جماعت میں عقل مند لوگ موجود ہیں ۔ دردوطن رکھنے والے بھی ہیں اور مسائل کے حل پر متحد ۔ متفق بھی دکھائی دیتے ہیں تو سب کو ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا کوئی مشکل نہیں بس ”نیت“ ہونی لازم ہے۔ نیت بندھ گئی تو عمل بھی ہو گیا ´۔ ذاتیات کو موضوع سخن بنانا بند کر دیں ۔ ذات کی قید سے سب جان چُھڑا لیں ۔ کیا مشکل ہے ؟؟ کِسی نے ہمیشہ تو زندہ رہنا نہیں اور نہ ہی قیامت تک ”اقتدار“ مقدر ہوا لکھا نظر آتا ہے۔ سیاست کو سیاسی انداز سے آگے بڑھائیں اور حکومت کو بڑے دل سے چلائیں یہ مشن ہونا چاہیے ۔ کوئی بھی غدار نہیں ۔ کوئی بھی وطن فروش نہیں۔ سب باتیں بُھلا کر عملی اقدامات کی طرف آجائیں ۔ 
آئینی عدالت بنتی یا آئینی بنچ ترمیم تو ہونی تھی اب ہوگئی اور نئے ”چیف جسٹس“ بھی نامزد کر دئیے گئے ۔ اب سوال یہ ہے کہ آگے بڑھنا ہے یا پھر ہمیشگی والے خالی ڈھول اُٹھا کر پیٹنا ہیں۔ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ آئین ۔ قانون کی مکمل آگاہی تو صرف معتبر ۔ مستند قانونی ماہرین ہی قوم کو دے سکتے ہیں۔ بچپن میں اخبارات میں پڑھے کچھ واقعات یاد آگئے (معمول نہیں بدلا ہاں واقعات کی تعداد ضرور بڑھتی رہی ہوگی) کِسی بھی شہر ۔ گاو¿ں میں ڈکیتی یا قتل کی واردات کے بعد متاثرہ فریق تھانے پہنچتا تو پہلا تنازعہ یہ کھڑا کر دیا جاتا کہ واردات کی جگہ ہمارے تھانہ کی حدود سے باہر ہے لُٹا پٹا شخص روتا پیٹتا دوسرے تھانے جا نکلتا وہاں والے بھی آنسوو¿ں ۔ تکلیف کی شُنوائی کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیتے کہ تمہارا کیس ہماری حدود میں نہیں آتا ۔ تھانے موجود ۔اہلکار موجود۔قوانین موجود۔ حدود بھی طے شدہ سب کے علم میں مگر ؟؟ ایک پاکستانی کے پیدا ہونے سے لیکر مرنے ۔ تدفین تک تمام حقوق۔ فرائض آئین کے تحت آتے ہیں لازمی طور پر مقدمات کا بوجھ بڑھے گا تو اُمید رکھ لیتے ہیں کہ بر وقت مقدمات اب ضرور لگتے جائیں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن