عدل گستری کے نئے سفر کا آغاز

جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے منصب پر تقرر کے ساتھ ہی پاکستان کی عدل گستری کے نئے سفر کا آغاز ہو گیا ہے۔ گزشتہ روز صدر مملکت آصف علی زرداری نے مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی کے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ تقرر کیلئے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی اپنے دستخطوں کے ذریعے توثیق کی جس کے بعد وفاقی وزارت قانون نے چیف جسٹس آف پاکستان کے منصبِ جلیلہ پر جسٹس یحییٰ آفریدی کے تقرر کا باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔ اس منصب پر ان کا تقرر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد 26 اکتوبر 2024ءسے تین سال کیلئے عمل میں آیا ہے۔ صدر مملکت نے وزیراعظم کی بھجوائی سفارشات پر آئین کی دفعات 175۔اے(3)‘ 177 اور دفعہ 179 کے تحت جسٹس یحییٰ آفریدی کے تقرر کے احکام صادر کئے ہیں۔ پارلیمنٹ کی منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس نے اپنی عمر کے 65 سال پورے ہونے پر ریٹائر ہونا ہوتا ہے جبکہ چیف جسٹس کے منصب کی میعاد تین سال مقرر کی گئی ہے چنانچہ فاضل چیف کی ریٹائرمنٹ کی عمر پوری ہونے سے پہلے انکے منصب کی تین سال کی میعاد پوری ہو جائے تو بھی وہ اس منصب سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کی تاریخ پیدائش 23 جنوری 1965ءہے۔ اس طرح انہوں نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کے 65 سال مکمل ہونے پر 24 جنوری 2030ءکو ریٹائر ہونا تھا تاہم اب 26ویں آئینی ترمیم کی بنیاد پر وہ بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ 27 اکتوبر 2027ءکو ریٹائر ہونگے۔ اس طرح انہیں اپنی مدت ملازمت میں تین سال کا نقصان اٹھانا پڑیگا۔ اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے عدل گستری میں اصلاحات کے جذبے کو بورئے کار لانے کی خاطر اپنی ملازمت کا تین سال کا خسارہ قبول کیا ہے۔ 
بطور وکیل اور بطور جج ہائیکورٹ و سپریم کورٹ وہ شاندار کارکردگی کے حامل اور متحمل مزاج‘ صاف گو اور آئین و قانون کی پاسداری و عملداری پر یقین رکھنے والی شخصیت ہیں۔ انہوں نے اپنے اصولی موقف کی بنیاد پر ہی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس مجریہ 2024ءکے تحت قائم کی گئی سپریم کورٹ کے تین فاضل ججوں کی کمیٹی کی رکنیت قبول کرنے سے معذرت کی تھی۔ اس وقت انکے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ وہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے منصب جلیلہ پر بھی فائز ہو سکتے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم سے قبل وہاب الخیری کیس کے فیصلے کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج کا بطور چیف جسٹس تقرر عمل میں آتا تھا اور متنازعہ ہونے کے باوجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اسی ناطے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے منصب پر تقرر ہوا تھا۔ اگر چیف جسٹس کے تقرر کا یہ طریقہ کار برقرار ہوتا تو 26 اکتوبر کو سینئر پیونی جج سید منصور علی شاہ ہی چیف جسٹس سپریم کورٹ کے منصب پر فائز ہوتے تاہم انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کے کیس میں عدالت عظمیٰ کی فل کورٹ کے سینئر رکن کی حیثیت سے آٹھ ججوں کا وہ اکثریتی فیصلہ صادر کیا جو حکمران جماعتوں اور آئینی و قانونی ماہرین کے بقول آئین و انصاف سے متجاوز فیصلہ تھا جبکہ اس فیصلے پر ہر صورت عملدرآمد کیلئے انہوں نے سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط کے برعکس اس فیصلے کی دوبار وضاحتیں بھی جاری کیں اور یہ فیصلے چیف جسٹس کے نوٹس میں لائے بغیر سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی ڈال دیئے جس سے سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں کا ازخود ایک متوازی بنچ تشکیل پانے کا تائر اجاگر ہوا۔ اس پر حکمران جماعتوں کو خدشہ لاحق ہوا کہ یہ مبینہ متوازی بنچ انکی حکومت اور اسمبلی کو چلنے نہیں دیگا چنانچہ انہوں نے ایکا کرکے چیف جسٹس کے تقرر کا 26ویں آئینی ترمیم کے تحت طریق کار تبدیل کر دیا۔ اس طریق کار کے تحت سپریم کورٹ کے پہلے تین سینئر ججوں جسٹس منصور علی شاہ‘ جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام چیف جسٹس کے تقرر کیلئے پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائے گئے جن میں سے پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کا انتخاب کیا۔ 
بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی کو عدل گستری کو درپیش متعدد چیلنجوں سے عہدہ برا ہونا ہے۔ ان میں میرٹ اور آئین و قانون کی پاسداری و عملداری یقینی بنانے کا چیلنج پہلے ہی انکے بروئے کار ہے جس میں یقیناً وہ سرخرو ہونگے۔ عدل گستری کو درپیش دوسرا اور اہم چیلنج مفصّل اور اعلیٰ عدالتوں میں سالہا سال سے زیرالتواءلاکھوں مقدمات کو جلد نمٹا کر عدلیہ پر پڑا مقدمات کا یہ بوجھ کم کرنے کا ہے۔ اس حوالے سے اب یقیناً آئینی بنچز کی تشکیل سے زیرالتواءمقدمات کا بوجھ کم ہونا شروع ہو جائیگا کیونکہ اب سپریم کورٹ میں عام سائلین کے مقدمات اور آئین و قانون کی متعلقہ شقوں کی وضاحت سے متعلق مقدمات کی سماعت الگ الگ بنچوں میں ہوگی۔ چنانچہ مقدمات کی تقسیم کے اس عمل سے زیرالتواءمقدمات کا بوجھ کم ہونا شروع ہو جائیگا۔ 
جسٹس یحییٰ آفریدی کیلئے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ تیسرا بڑا چیلنج نظام عدل میں ماضی کی غلطیوں کے ازالے اور اصلاحات کیلئے اپنے پیشرو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اٹھائے گئے اقدامات کو آگے بڑھانے کا ہے تاکہ عدلیہ کی آزادی‘ خودمختاری اور اسکے قطعی طور پر غیرجانبدار ہونے کا تصور و تشخص پختہ ہو سکے۔ اس حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے مخالفین کی کڑی تنقید اور مغلظات سن اور برداشت کر کے عدلیہ کے کئی حوالوں سے داغدار ہوئے چہرے کو صاف کرنے کا عمل جاری رکھا جو یقیناً لائق تحسین ہے۔ اب جسٹس یحییٰ آفریدی کو بھی بہرصورت آئین و قانون کی عملداری یقینی بنانے کا بیڑہ اٹھانا ہے جس میں انہیں ماضی کی طرح اپنے ادارے کے اندر سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور حکمرانوں سمیت متعدد طبقات کی جبینیں بھی شکن آلود ہو سکتی ہیں۔ اس تناظر میں یہ صورتحال خوش آئند ہے کہ ملک اور صوبوں کی بار ایسوسی ایشنوں‘ بار کونسلوں اور دوسری مختلف تنظیموں کی جانب سے جسٹس یحییٰ آفریدی کے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ تقرر کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز خود بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سید منصور علی شاہ کے چیمبرز میں جا کر ان سے ملاقاتیں کیں جبکہ انکے برادر ججوں نے بھی انکے چیمبر میں جاکر انہیں چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہونے کی باضابطہ مبارکباد دی۔ اس سے یقیناً عدل گستری میں بہتری کے راستے ہموار ہونگے۔
 یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ تحریک انصاف اور اس سے وابستہ وکلاءکی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ کی جگہ جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہونے کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور تحریک شروع کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے جو کسی بھی حوالے سے سودمند نہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو اب کم از کم عدلیہ کو اپنی اودھم مچانے والی سیاست کی زد میں لانے سے گریز کرنا چاہیے۔ حصول انصاف اور داد رسی کیلئے انہیں بہرحال عدلیہ کے روبرو ہی پیش ہونا ہے۔

ای پیپر دی نیشن