مولانا محمدیٰسین نقشبندی قصوری
بخاری خانوادے کے سرخیل اور برصغیر میں تصوف و طریقت کے امام حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری ؒنے برصغیر میں تشریف آوری کے بعد اوچ شریف کو علم و حکمت کا مرکز بنایا۔ آپ کے نبیرہ عظمیٰ کی جن جلیل القدر ہستیوں نے برصغیر میں علوم و معارف کی ترویج اور شریعت و طریقت کی تبلیغ کے حوالے سے گراں قدر خدمات سرانجام دیں، ان میں شیخ المشائخ حضرت پیر سیّد محمد ابراہیم شاہ بخاری آستانہ پیر بخاری نارنگ شریف کا نام انتہائی معتبر اور نمایاں ہے۔ آپ کا شجرہء نسب21واسطوں سے حضرت سیّد جلال الدین سرخ بخاری اوچ شریف اور 38واسطوں سے سرچشمہ حکمت و ولایت، باب مدینۃ العلم حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے ملتا ہے۔ آپ کی سوانح ’’تذکر الفاصلٰین فی مناقبِ ابراہیم‘‘ کے مطابق حضرت پیر سید محمد ابراہیم شاہ بخاری بچپن ہی سے فقر و درویشی اور علم و آگہی سے متصف، خاندانی پس منظر اور گھریلو ماحول نے شعوربخشا ۔ مزاج کے مطابق اپنی طالب علمانہ زندگی کا آغاز قرآن پاک پڑھنے سے کیااور مختصر وقت میں قرآن پاک ناطرہ پڑھ لینے کے بعدحفظ کرنے کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔ حفظِ قرآن کے بعد ابتدائی تعلیم کے حوالے سے رائے پور گجراں ضلع جالندھر کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ تاہم آپ نے ابتدائی چند کتب کی تکمیل کے فوراً ہی بعد برصغیر کی معروف علمی اور تاریخی درسگاہ ’’جامعہ نعمانیہ لاہور‘‘ کا رخ کیا۔
بیسویں صدی کے اوائل میں دارالعلوم نعمانیہ اپنے تدریسی نظام اور تربیتی ماحول کے پیش نظر برصغیر کے چند اعلیٰ اداروں میں شمار ہوتا تھا۔ یہاں پر قرآن کریم اور حدیث شریف کے علوم و معارف، فقہ، اصول فقہ، ادب، بلاغت، منطق و فلسفہ اور دیگر علوم و فنون کی تدریس کا انتہائی اعلیٰ اہتمام تھا۔ حضرت پیر محمد ابراہیم شاہ بخاری کے یہاں قیام کے دوران آپ کی اعلیٰ علمی اور روحانی شخصیات سے خصوصی صحبتیں رہیں۔ ان میں پیر سیّد مہر علی شاہ ؒگولڑہ شریف، پیر سید جماعت علی شاہؒ علی پور شریف، میاں شیر محمد شرقپوریؒ، سید محمد اسماعیل شاہ بخاری ؒکرمانوالہ شریف، مولاناغلام قادر بھیرویؒ، مولانا سید دیدار علی شاہ الوریؒ، مولانا محمد عالم عاصیؒ امرتسری، مولانا سید احمد سعید کاظمیؒ، مولانا مفتی غلام جان ہزاروی رضویؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
پیر کامل کی دستگیری تصوف و روحانیت میں بڑی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ سید امین الدین احمد مؤلف ’’صوفیائے نقشبند‘‘ حضرت پیر سیّد محمد ابراہیم شاہ بخاری کے تذکرے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ آپ حضرت قبلہ شیرربانی میاں شیر محمد صاحب شرقپوری کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت میاں صاحب نے خصوصی توجہ سے نوازا۔ ایک ہی نگاہ سے عنایات اور تجلیات کی فراوانی ہوئی۔ حضرت میاں صاحب نے بیعت سے نوازا اور داخل سلسلہ فرمایا۔اکثر و بیشترآپ حضرت قبلہ میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر حقائق و معارف سے مستفید ہوتے رہے۔ ’’چشمہ فیض شیر ربانی?‘‘ اور ’’انعام الرحیم‘‘ کی روایت کے مطابق حضرت میاں صاحب نے دوسری یا تیسری حاضری پر خلافت سے سرفراز فرمایا اور حکم دیا کہ شاہ جی! اب گھر ہی بیٹھ کر لوگوں کو دینی تعلیمات اور روحانی فیوضات عطا کیا کریں، رب کریم برکت عطا فرمائے گا۔ حضرت قبلہ شاہ صاحب نے اپنے پیرو مرشد کی مکمل تائید اور سرپرستی کے ساتھ نسبت نقشبندیہ کے جملہ فیوض و برکات سے بہرہ مند ہو کر کھوکھرشریف، سہول شریف، کوٹلی شریف اور عمر کے آخری ایام میں نارنگ شریف میں رْشد و ہدایت کے چراغ روشن کیے۔ گردونواح سے حاضرہونے والوں کا سلسلہ روز بروز بڑھتا گیا۔ کیف و مستی اور ہدایت و معرفت کا فیضان عام ہو گیا۔
صوفیاء کے حالات اور دین اسلام کی تبلیغ کا کوئی باب ایسا نہیں جس میں مشکلات موجود نہ ہوں، تاہم انسان جب دنیا سے کٹ کر اللہ تعالیٰ سے لَو لگا لیتا ہے تو راستے کی سختیاں انسانی ارادوں کو متزلزل نہیں کرتیں۔ حضرت قبلہ پیر صاحب ایک روز حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حالات کی نامساعدت، مْنہ زور مخالفتوں کے احوال گوش گزار کئے۔ ’’انعام الرحیم فی ذکر ابراہیم‘‘ کے مطابق حضرت میاں صاحب نے یہ احوال سنے تو جلال میں آگئے اور فرمایا:’’شاہ جی! تہاڈا دیوا بلدا ای رہے گا‘‘۔ یعنی اس علاقے میں صرف آپ کا چراغ روشن رہے گا، دشمن رسوا اور زیر ہوں گے۔ روشن ضمیر پیر کے الفاظ آنے والے دور میں اَمر ہو گئے، اللہ تعالیٰ نے آپ کوسرفراز فرمایا۔
حضرت پیر صاحب ساری زندگی اسوہء کامل پر کاربند رہے۔ اْٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے اور بات چیت میں بھی یہی رنگ نمایاں رہا۔ عبادات و نماز، تسبیح و نوافل اور وظائف میں وقت کی پابندی کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھتے، صلہ رحمی فرماتے، غریبوں اور ناداروں کی اعانت فرماتے۔ ذاتی معاملہ میں بھی کبھی کسی سے رنجیدہ نہ ہوتے۔ لباس میں انتہائی سادگی ہوتی۔ گویا آپ کی ساری زندگی شریعت مطہرہ کی پیروی میں بسر ہوئی۔ یہی رنگ آپ کے دونوں صاحبزادوں حضرت پیر سیّد امیر محمد شاہ بخاری اور حضرت پیر سیّد فاضل شاہ بخاری میں نمایاں ہوا اور دونوں اپنے والد گرامی اور مرشد کے فیضان کرم و محبت کے امین رہے۔ ’’چشمہ فیض شیر ربانی‘‘ کے مطابق حضرت قبلہ پیر صاحب کا وصال 30ستمبر1967ء بمطابق 25جمادی الثانی 1387ھ میں ہوا۔ محلہ پیر بخاری نارنگ شریف میں آپ کا آستانہ مرجع خلائق ہے۔ آپ کا58واں سالانہ عرس 26اکتوبر2024ء بروز ہفتہ، کو آستانہ پیر بخاری نارنگ شریف میں روایتی عقیدت و احترام سے انعقاد پذیر ہو رہا ہے۔