جمعرات کی صبح جو کالم چھپا ہے اس میں اپنی دانست میں اس خاکسار نے ایک اہم ’’خبر‘‘ دینے کی کوشش کی تھی۔ خبر یہ تھی کہ آئین میں 26ویں ترمیم پاس ہوجانے کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت کو خیال آیا کہ آئین کی بے شمار شقوں میں ترامیم ہوئی ہیں۔ سیاست میں لیکن لوگ حقائق سے تاثر کو زیادہ اہم گردانتے ہیں۔ تاثر کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے خیال یہ آیا کہ خلق خدا کی اکثریت تو یہ سوچتی ہے کہ 26ویں ترمیم کا واحد مقصد عزت مآب منصور علی شاہ صاحب کو چیف جسٹس بننے سے روکنا ہے۔ اس پہلو پر غور کرتے ہوئے انتہائی سنجیدگی اور خلوص سے فیصلہ ہوا کہ منصور علی شاہ صاحب ہی کو مذکورہ عہدے کے لئے نامزد کروانے کی کوشش کی جائے۔
فائز عیسیٰ کے بعد وہ سینئر ترین جج تھے۔ الجہاد ٹرسٹ کی جانب سے پیش ہوئی ایک اپیل کے نتیجے میں 1996ء میں لیکن یہ فیصلہ ہوا تھا کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کے بعد والا سینئر ترین جج ازخود چیف جسٹس بن جانے کا حقدار ہوگا۔ جو فیصلہ ہوا اسے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے بدلنے کی کوشش ہوئی تھی۔ ’’عوام کی بھرپور حمایت‘‘ سے چیف جسٹس کے منصب پر لوٹے افتخار چودھری نے مگر اسحاق ڈار کے ذریعے پارلیمان کو دھمکایا کہ اگر اٹھارویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ میں تعیناتیوں کے عمل میں منتخب حکومت کو شراکت دار بنانے کی کوشش ہوئی تو وہ پوری 18ویں ترمیم کو ’’خلاف آئین‘‘ قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں گے۔ افتخار چودھری کی ’’جگاگیری‘‘ سے منتخب نمائندے لرز گئے اور عدلیہ کی ’’خودمختاری‘‘ مبینہ طور پر ’’بچ‘‘ گئی۔ یہ بات مگر ہم آج تک سمجھ نہیں پائے ہیں کہ ہر ریاستی ادارے کے اہم ترین عہدوں پر فائز لوگوں کو ازخود نوٹس کے ذریعے اپنے حضور طلب کرنے والوں سے اگر کوئی خطا سرزد ہوجائے تو وہ کس کے سامنے جوابدہ ہیں۔ کہنے کو سپریم جوڈیشل کونسل نامی ایک ’’نگہبان‘‘ ادارہ ہے۔ اس ادارے میں لیکن جج ہی ججوں کا احتساب کرتے ہیں۔ ’’پیٹی بھائیوں‘‘ کے سوا کوئی ایک اور شخص احتسابی عمل میں حصہ لینے کا حقدار نہیں۔ جن ممالک میں اقتدار کا سرچشمہ واقعتا عوام تصور ہوتے ہیں وہاں ججوں کیخلاف شکایات کا جائزہ لینے میں منتخب اداروں کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ بھارت میں یہ فریضہ پارلیمان سرانجام دیتی ہے۔ امریکہ میں سپریم کورٹ کے جج نامزد تو صدر کرتا ہے مگر اس کی منظوری منتخب ایوان کا حق ہے اور وہ کسی نام کو منظور کرنے سے قبل اسے کمیٹی کے روبرو طلب کرنے کے بعد اس کے ماضی کو احتساب کی چھلنی سے گزارتا ہے۔
وطن عزیز میں لیکن 1950ء کی دہائی سے عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو ’’چور اور لٹیرے‘‘ ثابت کیا جاچکا ہے۔ یہ ثابت کرنے کے بعد ہمارے دلوں میں یہ خواہش اجاگر کرنے کی کوشش ہوتی رہی کہ ’’چور اور لٹیرے‘‘ سیاستدانوں سے ’’رسیدیں طلب کرنے‘‘ کے لئے احتساب بیورو جیسے ادارے بنائے جائیں۔ ایوب خان، یحییٰ ، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے لگائے مارشل لائوں کا کلیدی ہدف بھی کرپشن کا خاتمہ ہی بتایا گیا تھا۔ ’’عوامی تحریک‘‘ کی بدولت افتخار چودھری چیف جسٹس کے منصب پر واپس لوٹے تو ہم نے عدلیہ سے مسیحا ڈھونڈنا شروع کردئے۔ یہ الگ بات ہے کہ افتخار چودھری سمیت جس جج سے بھی ہم نے مسیحائی کی توقع باندھی وہ بالآخر کچھ اور ہی ثابت ہوا۔ مذکورہ تناظر میں حالیہ مثال فائز عیسیٰ کی صورت ابھری۔
عمران حکومت کے دور میں ان کے خلاف مبینہ طورپر ’’غیر قانونی ذرائع‘‘ سے کمائی اور باہر بھجوائی رقوم کے ذریعے بیرون ملک قیمتی جائیدادیں خریدنے کا الزام لگا۔ وہ اپنی اہلیہ سمیت صفائیاں دینے کے لئے عدالتوں کے چکر کاٹنے لگے۔ ان کی اذیت نے ہمارے دلوں کو پریشان کردیا۔ ہماری اکثریت نے طے کرلیا کہ موصوف کو درحقیقت وہ فیصلہ لکھنے کی سزا دی جارہی جس کے ذریعے انہوں نے ریاست کے ایک طاقتور ادارے کے رویے پر فیض آباد میں ایک مذہبی جماعت کے دئے دھرنے کے حوالے سے واجب سوالات اٹھائے تھے۔ کئی برسوں تک ہمارے ’’ہیرو‘‘ رہے یا بنائے فائز عیسیٰ مگر 8فروری 2024ء کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف سے ’’بلے‘‘ کا انتخابی نشان ’’چھیننے‘‘ کے مرتکب ٹھہرادئے گئے۔ اس کے بعد انہیں مبینہ طورپر ’’فارم 47کے تحت قائم ہوئی‘‘ جعلی حکومت کا واحد سہارا بتاکر بدترین ویلن میں بدل دیا گیا۔
فائز عیسیٰ کو بدی کی علامت بناتے ہوئے ہمیں ان کا مقابلہ کرتا ایک بااصول ہیرو بھی درکار تھا۔عزت مآب منصور علی شاہ صاحب نے 12جولائی کو7دیگر ججوں کے ساتھ خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مختص نشستوں کے حوالے سے ایک فیصلہ لکھ کر یہ خلاپْر کردیا۔ شاہ صاحب نے ’’تاریخی‘‘ فیصلہ لکھ دیا تو ہم سادہ لوح بے تابی سے اس دن کا انتظار کرنا شروع ہوگئے جب فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد شاہ صاحب چیف جسٹس کے عہدے پر بلاروک ٹوک فائز ہوجائیں گے۔ حکومت نے مگر 26ویں ترمیم کے ذریعے ان کا راستہ روک دیا۔
اتوار کی رات 26ویں ترمیم کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد مجھے کامل یقین تھا کہ فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے جو تین سینئر ترین نام قومی اسمبلی کے 8اور سینٹ کے 4اراکین پر مشتمل کمیٹی کو بھیجے جائیں گے ان میں سے عزت مآب یحییٰ آفریدی صاحب کا نام بآسانی چن لیا جائے گا۔ پیر کی رات مگر ایک اہم ذریعے نے خبر دی کہ پیپلز پارٹی کی قیادت سنجیدگی سے سوچ رہی ہے کہ منصور علی شاہ صاحب ہی کو نامزد کردیا جا ئے۔ میرے کانوں کو اعتبار نہیں آیا۔ رپورٹر کے تجسس نے مگر خود کو ملی خبر کی تصدیق کو اْکسایا۔ رات کے ایک بجے تک مسلسل لوگوں سے رابطے میں رہا۔ منگل کی دوپہر بالآخر اس خبر کی تصدیق ہوگئی کہ پیپلز پارٹی نہایت سنجیدگی سے مسلم لیگ (نون) کو قائل کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ شاہ صاحب ہی کو نیا چیف جسٹس تعینات کردیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن بھی اس ضمن میں پیپلز پارٹی کے حامی تھے۔ دونوں جماعتیں مصر ہیں کہ شاہ صاحب کی تعیناتی ٹھوس انداز میں پیغام دے گی کہ 26ویں ترمیم کا اصل ہد ف ان کے چیف جسٹس بننے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا نہ تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی سوچا گیا کہ شاہ صاحب کی تعیناتی سے تحریک انصاف کو’’ٹھنڈ‘‘ پڑجائے گی۔ اس کے حامی وکلاء کے پاس تحریک چلانے کا جواز باقی نہیں رہے گا۔
منگل کی سہ پہر مگر تحریک انصاف کے نامزد کردہ لوگوں نے پارلیمان کی اس کمیٹی میں نہ جانے کا فیصلہ کیا جس نے نئے چیف جسٹس کا چنائوکرنا تھا۔ وہ اگر موجود ہوتے تو مسلم لیگ کو دو تہائی اکثریت سے عزت مآب یحییٰ آفریدی صاحب کو نامزد کرنا مشکل ہوجاتا۔ میں نے اس تناظر میں جو لکھا وہ ٹھوس معلومات پر مبنی تھا۔ اس سے متعلقہ حقائق میں نے کئی گھنٹوں کی مشقت کے ذریعے اکٹھا کئے تھے۔ میرا کالم چھپنے کے بعد سے مگر تحریک انصاف کے فدائین کا لشکر لعن طعن میں مصروف ہے۔ الزام لگایا جارہا ہے کہ قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھا یہ ’’جیالا صحافی‘‘ پیپلز پارٹی کو منصور علی شاہ کا حامی بناکر دکھاتے ہوئے بغض بھرے دل کے ساتھ منصور علی شاہ کے تعینات نہ ہونے کی ساری ذمہ داری تحریک انصاف کے سر ڈال رہا ہے۔ تحریک انصاف کے حامی ہی نہیں بلکہ میرے کئی دوستوں نے بھی اس شک کا اظہار کیا ہے۔ ان دونوں فریقین کے تبصرے پڑھنے کے بعد ارادہ یہ باندھا ہے کہ آئندہ ’’خبر‘‘ ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہ کروں۔ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے کو حقائق نہیں ہیرو اور ویلن درکار ہیں۔ میں اگر ہیرو نہیں ڈھونڈسکتا تو کوئی ویلن ڈھونڈ کر اس کے پیچھے پڑ جائوں۔
میرا آئندہ کوئی خبر نہ ڈھونڈنے کا ارادہ
Oct 25, 2024