اسلام آباد؍ پشاور (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ+ اپنے سٹاف رپورٹر سے) عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو جمعرات کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا۔ بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ 2 کیس میں ضمانت پر رہائی عمل میں آئی ہے جو رہائی کے بعد اپنی رہائشگاہ بنی گالہ پہنچیں اور بعد ازاں اسلام آباد سے پشاور پہنچ گئیں۔ عمر ایوب اور مشعال یوسفزئی ان کے ساتھ تھے، بشریٰ پشاور میں وزیراعلیٰ ہاؤس پہنچ گئیں، وہ وزیراعلیٰ ہاؤس کی انیکسی میں رہیں گی۔ بشریٰ بی بی کا شوکت خانم ہسپتال میں مکمل میڈیکل چیک اپ کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بشریٰ بی بی نے معدے کی تکلیف سے متعلق آگاہ کیا تھا۔ قبل ازیں بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا، رہائی پر پی ٹی آئی نے جشن منایا، بانی نے اظہار اطمینان کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت منظوری اور سپیشل جج سنٹرل اسلام آباد شاہ رخ ارجمند کی عدالت سے روبکار جاری ہونے کے بعد بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی وکلاء خالد یوسف چودھری، بیرسٹر رائے سلمان اور دیگر سپیشل جج سنٹرل کی عدالت پیش ہوئے اور اسلام آباد ہائی کورٹ احکامات عدالت پیش کیے۔ عدالت نے ضمانتی مچلکے جمع ہو جانے پر رہائی کی روبکار جاری کر دی۔ علاوہ ازیں جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران کہا کہ بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا۔ سکیورٹی کے انتظامات کریں اور بانی پی ٹی آئی کو عدالت میں لائیں، اگر نہیں لا سکے تو آپ عدالت کو بتائیں گے کہ کیوں پیش نہیں کر سکے۔ ایڈووکیٹ فیصل چوہدری کی درخواست پر سماعت کے دوران عدالتی طلبی پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل انجم غفور عدالت پیش ہوئے جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ سٹیٹ کونسل نے کہاکہ عدالت کی سماعتیں نہیں ہو رہی تھیں اس لئے ان کی ملاقات نہیں کرائی گئی، جس پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان آپ یہ کہہ رہے ہیں حکومت ایک نوٹیفکیشن سے انصاف کی فراہمی کا عمل روک سکتی؟، درخواست گزار کہہ رہا ہے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی، میں یہ نہیں کہہ رہا نوٹیفکیشن درست ہے یا نہیں اس کے لئے تو ان کو الگ سے پٹیشن جاری کرنا پڑے گی، لیکن عدالتی حکم کے باوجود ملاقات سے انکار عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔ سٹیٹ کونسل نے کہاکہ پنجاب حکومت نے لا اینڈ آرڈر صورتحال کی بنیاد پر جیل ملاقاتوں پر پابندی لگائی ہے، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہاکہ وکلاء کی ملاقاتوں پر بھی پابندی لگا دی گئی؟، جس نے یہ نوٹیفکیشن ایشو کیا اس نے بھی توہینِ عدالت کی ہے، حکومتِ پنجاب نے اگر وکلاء کی ملاقات روکی تو توہینِ عدالت کی ہے، اس پر وزارتِ داخلہ رپورٹ جمع کرائے کہ کیا سکیورٹی وجوہات تھیں،کدھر ہے نوٹیفکیشن، سٹیٹ کونسل نے نوٹیفکیشن عدالت پیش کر دیا، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہاکہ یہ تو21 سے25 تک کا نوٹیفکیشن ہے پہلے والا بھی دکھائیں،وزارت داخلہ کی رپورٹ دیں اور بتائیں کہ کیا سکیورٹی ٹھریٹس ہیں، سٹیٹ کونسل نے کہاکہ3 اکتوبر کے بعد سکیورٹی تھریٹس کی وجہ سے پابندی لگی، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہاکہ عدالت سکیورٹی تھریٹس کو نہیں مانتی، وکلاء کو بھی نہیں ملنے دیا گیا، یہ توہین عدالت ہے، ابھی کیا پوزیشن ہے، آپ آج کی تاریخ میں عمل کریں۔ سٹیٹ کونسل نے کہاکہ 25 تک کا نوٹیفکیشن ہے، عدالت نے کہاکہ یہ نوٹیفکیشن میرے احکامات کی خلاف ورزی ہے، یہ بہنیں ہیں، وکلاء نہیں ہیں، وکلاء کو کیوں نہیں ملنے دیاگیا، حکومت ایک نوٹیفکیشن جاری کر کے ایک جگہ کو سیل کر کے انصاف کی فراہمی کو روک سکتی ہے کیا، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہاکہ اے جی صاحب یہ توہین میرے احکامات کی ہے۔ وزارت داخلہ کو وضاحت دیناہوگی کہ میرے احکامات سے کیسے لاعلم رہے، رولز بھی موجود ہیں۔ یہاں درخواست کیوں آئے، وزارت داخلہ نے آکر بتانا ہے کہ کون سی سکیورٹی تھی کہ وکلاء بھی نہیں جا سکتے تھے، حکومت پنجاب ہوم ڈیپارٹمنٹ نے6 اکتوبر اور17 اکتوبر کے احکامات جاری کیے، وزارت داخلہ کے لیٹر کا بھی حوالہ دیا گیا۔ فیصل فرید چودھری ایڈووکیٹ نے کہاکہ3 اکتوبر سے آج تک وکلاء کی جیل ملاقات نہیں کرائی گئی۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ شیر شیر آرہا ہے اتنے لیٹرز جاری کرتے ہیں، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اگر یہ جینوئن نہ ہوں، جنہوں نے یہ لیٹر لکھے ہیں ان سے ان کیمرہ پوچھوں گا۔ قرآن پر ہاتھ رکھا کر پوچھوں گا وہ بیان حلفی دیں گے یہ واقعی یہ پوزیشن تھی، شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم اگر جیل چلے جاتے تو کیا ہم سے کوئی سکیورٹی تھریٹ ہیں۔ عدالت نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو بانی پی ٹی آئی کی وکلاء سے ویڈیو لنک کے ذریعے ملاقات کرانے کا حکم دے دیا۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس آرڈر پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ توہین عدالت کیس میں عدالت ایسا آرڈر پاس نہیں کر سکتی۔ عدالت نے وزارتِ داخلہ کے جوائنٹ سیکرٹری کو ریکارڈ کے ہمراہ طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آفس کو بھی عدالتی معاونت کیلئے نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے تین بجے بانی پی ٹی آئی کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ بانی پی ٹی آئی کو لے کر آئیں گے وہ اپنے وکلا کے ساتھ میٹنگ کر لیں گے، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ بانی پی ٹی آئی کو آپ عدالت میں پیش کرینگے تو یہ عدالت عالیہ ہو گی،آپ سکیورٹی کے انتظامات کریں اور بانی پی ٹی آئی کو عدالت میں لائیں، اگر نہیں لا سکے تو کل آپ عدالت کو بتائیں گے کہ کیوں پیش نہیں کر سکے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے کہاکہ اگر آپ نہیں لائیں گے تو وجہ بتائیں گے، جس سکیورٹی تھریٹ وجہ سے نہیں لائیں گے اس سے متعلق عدالت کو مطمئن کریں گے۔ ادھر بعد ازاں بانی پی ٹی آئی کو عدالت پیش کرنے کی بجائے وکلاء کی جیل ملاقات پر کرانے کا فیصلہ کیاگیا اور وکلاء کی جیل میں ہی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات بھی کرا دی گئی۔ فیصل فرید چودھری کے مطابق پی ٹی آئی لیگل ٹیم کے تین وکلاء کی جیل ملاقات سے متعلق ایڈووکیٹ جنرل آفس نے اطلاع دی۔ ادھر سلمان اکرم راجہ، فیصل فرید چودھری اور شعیب شاہین کی ملاقات بانی پی ٹی آئی سے کرا دی گئی۔بشریٰ بی بی سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے خیبر پی کے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں شبلی فراز، حامد رضا اور رؤف حسن بھی موجود تھے۔ علی امین گنڈا پور نے بشریٰ بی بی کو مکمل آرام کا مشورہ دیا۔ وزیراعلیٰ ہاؤس کی سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی۔
بشریٰ بی بی رہا، پشاور پہنچ گئیں: بانی کو عدالت لائیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
Oct 25, 2024