گذشتہ برس غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جنگ شروع ہونے اور یوکرین جنگ کے تناظر میں روس اور مغرب کے بیچ تناؤ بڑھنے کے بعد سے بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ایسے میں مغربی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ روس نے حوثیوں کو بعض معلومات فراہم کیں جو مغربی بحری جہازوں پر حملوں میں ان کے کام آئیں۔ایک باخبر ذریعے اور دو یورپی دفاعی ذمے داروں کا دعویٰ ہے کہ روس نے حوثیوں کو بحیرہ احمر میں مغربی جہازوں پر میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے ذریعے حملے کے دوران میں اہداف کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
روسی سیٹلائٹس
مذکورہ ذرائع کے مطابق حوثیوں نے بحری جہازوں پر حملوں میں توسیع کے ساتھ روسی سیٹلائٹ کی فراہم کردہ معلومات کا استعمال بھی شروع کر دیا۔ یہ بات امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل" نے بتائی۔ ایک ذمے دار نے اس طرف اشارہ کیا کہ سیٹلائٹ سے حاصل کردہ معلومات اور تصاویر ایرانی پاسداران انقلاب کے ارکان کے ذریعے منتقل کی گئیں۔حوثی ملیشیا کے ارکان۔اخبار کے مطابق اس معاونت سے ظاہر ہوتا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پوتین امریکا کے زیر قیادت مغرب کے اقتصادی اور سیاسی نظام کو سبوتاژ کرنے کے لیے کس حد تک تیار ہیں۔بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک ماسکو نے مشرق وسطی سے لے کر ایشیا تک عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی تا کہ واشنگٹن کے سامنے مشکلات کھڑی کر سکے۔ بالخصوص مشرق وسطی میں وسیع ہوتا تنازع جو گذشتہ برس سات اکتوبر کے حملے سے شروع ہوا، امریکی ذمے داروں کے کافی وسائل اور وقت اس کی نذر ہو گیا۔اس سے قبل مغربی ذرائع اس جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ کرملن ہاؤس کا ایک مقرب تاجر حوثی جماعت کو اسلحہ فراہم کرنے کے سمجھوتوں میں شامل ہوا۔ تاہم بعد ازاں ماسکو نے اس امر کی تردید کرتے ہوئے یمن میں قانونی حکومت کے لیے اپنی حمایت کو باور کرایا۔گذشتہ برس نومبر کے بعد سے حوثیوں نے بحیرہ عرب اور بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے ذریعے تقریبا 200 حملے کیے۔ حوثیوں کا دعویٰ رہا کہ یہ جہاز اسرائیل سے وابستہ تھے یا اسرائیلی بندر گاہوں کی طرف گامزن تھے۔ واضح رہے کہ بحیرہ احمر ایک اہم گزر گاہ ہے اور انٹرنیشنل چیمبر آف شپنگ کے مطابق عالمی تجارت کا تقریبا 12 فی صد حصہ بحیرہ احمر سے گزرتا ہے۔