ہم قانون اور کاغذوں پر چلتے ہیں سچ کیا ہے یہ اوپر والا جانتا ہے: چیف جسٹس

چیف جسٹس  پاکستان قاضی فائز عیسٰی کا سپریم کورٹ کے اعلیٰ ترین جج کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس ہوا۔فل کورٹ ریفرنس سپریم کورٹ کمرہ عدالت نمبر ایک میں جاری ہے.جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت سپریم کورٹ کے دیگر ججز شریک ہوئے۔فل کورٹ ریفرنس میں 16 ججز شریک ہوئے جن میں 12 مستقل جج صاحبان، 2 ایڈہاک ججز اور 2 عالم ججز شامل تھے۔الوداعی ریفرنس میں جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی ،جسٹس شاہد وحید ، جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس عرفان سعادت خان ،جسٹس نعیم اختر افغان ،جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس عقیل عباسی شریک ہوئے۔الوداعی ریفرنس میں ایڈووکیٹ ججز جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم میاں بھی شریک ہوئے۔ شریعت اپیلیٹ بنچ کے دو عالم ججز بھی شریک ہوئے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس میں مجموعی طور پر پانچ ججز شریک نہیں ہوئے جن میں جسٹس منیب اختر،جسٹس عائشہ ملک ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس شہزاد ملک  شامل تھے۔ان کے علاوہ سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ عمرے کی ادائیگی کیلئے مکہ میں ہونے کے باعث فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے وکلاء، عدالتی عملہ اور صحافی بھی شریک تھے۔فل کورٹ ریفرنس سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم قانون اور کاغذوں پر چلتے ہیں سچ کیا ہے یہ اوپر والا جانتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ   سب سے پہلے شکریہ اللہ تعالیٰ کا جس نے مجھے منصب عطاء کیا. شکریہ چوہدری افتخار کا جنہوں نے مجھے بلوچستان ہائی کورٹ کیلئے چنا اور ان لوگوں کابھی شکریہ جو آج ہم میں موجود نہیں ہیں۔قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شکر ہے میری اہلیہ آج موجود ہیں اور انہوں نے خود میری تعریفیں سن لیں۔ انہوں نے اپنے ماضی کے بارے میں بتایا کہ سولہ سال کی عمر کا تھا جب میرے والد کا انتقال ہوا،میری دادی پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ میری والدہ نے کہا پہلے ڈگری کر لو پھر جو مرضی کرنا،  ڈگری مکمل کرکے شادی کی اور وکالت کا آغاز کیا۔ ایک دن چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بلا کر کہا کہ آپ بلوچستان سنبھالیں۔ ان کو کہا اپنی اہلیہ کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ  بلوچستان کے ان اضلاع میں بھی اہلیہ  کے ساتھ گیا جہاں جانے سے منع کیا جاتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ میری نواسی نے کہا کہ دوست ناراض ہیں کہ مارگلہ ہلز پر ریسٹورنٹ کیوں گرائے۔نواسی صفیہ نے انہیں کہا یہ پرندوں اور جانوروں کا گھر تھا ان کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ماحول اچھا نہ رہا تو جانوروں کیا انسانوں کا بھی دنیا میں رہنا مشکل ہوجائے گا۔چیف جسٹس کامزید کہنا تھا کہ  سپریم کورٹ میں میرا پہلا کام رجسٹرار کا انتخاب تھا جو درست ثابت ہوا۔ رجسٹرار جزیلہ اسلم نے میرا پیار بھی دیکھا اور ریچھ والا رویہ بھی۔اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام عملے کا مشکور ہوں۔قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیس سنتے ہوئے اندازہ لگانا ہوتا ہے سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے۔ہم قانون اور کاغذوں پر چلتے ہیں سچ کیا ہے یہ اوپر والا جانتا ہے۔ چیف جسٹس نے اپنی تعریف پر مبنی انگلینڈ سے ایک خاتون کا لکھا ہوا خط بھی پڑھ کر سنایا۔انہوں نے کہا کہ انصاف کرنا ہمارا فرض ہے اسی لیے ہمیں منتخب کیا جاتا ہے۔تمام احباب کا بہت شکریہ آزادی میں کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جانے پر خوشی بھی ہے اور افسوس بھی، نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدینامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی  نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جانے پر خوشی بھی ہے اور افسوس بھی۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کچھ لوگوں کو شاید عجیب لگے لیکن جسٹس فائز عیسیٰ کو مسکرا کر ملیں تو ایسے ہی جواب ملتا ہے اور  اگر انہیں اشتعال دلایا جائے تو جہنم کی آگ بھی ان کے سامنے کچھ نہیں ۔ ان کا موڈ غصے کے آدھے گھنٹے بعد نارمل ہوجاتا تھا۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ جسٹس یحییٰ آفریدی کی باتیں سن کر ہنسنے لگے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی  نے کہا کہ چیف جسٹس نے اپنے دور میں خواتین اور بچوں کے حقوق کا تحفظ کیا۔چیف جسٹس کے اہل خانہ کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے اعزاز میں آج دیا جانے والا ظہرانہ سرکاری خرچ پر نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا ظہرانے کا خرچ آپ خود اٹھائیں۔نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ قوم  کے لیے ضروری ہے کہ اختیارات کی تقسیم اور قانون کی بالادستی یقینی بنائی جائے۔انہوں نے کہا کہ میری پہلی ترجیح دوردراز علاقوں کی ضلعی عدلیہ ہوگی۔فوری طور پر دور دراز علاقوں کی ضلعی عدلیہ پر توجہ دینا ہوگی ۔  ساتھی ججز اور متعلقہ ہائی کورٹس کے تعاون سے دعا ہے اللہ ہمیں کامیاب کرے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان  نے فل کورٹ ریفرنس  سے خطاب  کرتے ہوئے کہا کہ   چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین و قانون، جمہوریت اور احتساب کے عمل میں غیر متزلزل رہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس ہمیشہ بنیادی حقوق آزادی اظہار اور خواتین کے حقوق کے علمبردار رہے۔ انہوں نے متعدد تاریخی فیصلے دیے۔چیف جسٹس نے  فیض آباد دھرنا کیس میں قانون کے مطابق اور پرامن احتجاج کا تاریخی فیصلہ دیا ۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو بھی واضح کیا  ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس بنتے ہی فل کورٹ ریفرنس بلایا گیا۔ چیف جسٹس نے مقدمات کو براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے اختیارات کو کمیٹی کے سپرد کرنے جیسے اہم اقدامات اور فیصلے دیے۔ ان کا عام انتخابات کے انعقاد میں  بھی اہم کردار ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو جمہوریت کی بقا کے لیے انتخابات پر راضی کیا ۔

ای پیپر دی نیشن