بغداد کے بعد امریکیوں کی نظریں اسلام آباد پر ہیں: ایازا میر

لاہور (سلمان غنی) ممتاز دانشور‘ قومی اسمبلی کے مسلم لیگی کارکن ایازا میر نے کہا ہے کہ بغداد کے بعد امریکیوں کی نظریں اسلام آباد پر ہیں، ہمیں امریکی اثرورسوخ اور وسائل کو اپنی اکانومی کی مضبوطی اور اپنے مفادات یقینی بنانے کیلئے بروئے کار لانا چاہئے۔ بلیک واٹر کی سرگرمیوں پر پارلیمنٹ خاموش اور میڈیا شور مچا رہا ہے، اس پر پارلیمنٹ میں بات ہونی چاہئے۔ طالبان ہمارے لئے خطرہ بن چکے تھے۔ منتخب حکومت نے قومی مفادات کا ٹوکرا فوج کو پیش کر دیا اور میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیاسی قوتوں کو فوج کی پشت پر کھڑا ہونا چاہئے۔ وزیرستان میں طے شدہ حکمت عملی کے تحت پیش رفت کے ذریعہ دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے اگر ہم اندرونی طور پر مضبوط ہوں تو ہم امریکی ڈکٹیشن سے انکار کر سکتے ہیں۔ بلیک واٹر کا مقابلہ کر سکتے ہیں عوامی جدوجہد صرف اعلانات سے نہیں ہوتی عدلیہ کی آزادی کا معجزہ پنجاب حکومت گرانے کے اقدام اور اس پر عوامی ردعمل سے ممکن بنا یہ کرشمہ صدر زرداری اور گورنر سلمان تاثیر کے باعث ممکن بنا۔ عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد نہ ہوتی تو مشرف رخصت نہ ہوتے اور پرویز الٰہی مشرف کی وردی سے چمٹے نظر آتے۔ وہ گذشتہ روز وقت نیوز کے پروگرام اگلا قدم میں سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔ پروگرام کے پروڈیوسر میاں شاہد ندیم اسسٹنٹ پروڈیوسر وقار قریشی تھے۔ ایاز امیر نے کہا کہ ملک کے جمہوری مستقبل کا انحصار سیاستدانوں کے ذمہ دارانہ طرز عمل اور پارلیمنٹ کو بروئے کار لانے میں ہے ورنہ ٹرپل ون برگیڈ اور آبپارہ کا کردار ختم نہیں ہوا یہ ادارے ہمیشہ فعال رہتے ہیں۔ مائنس ون فارمولا بھی خفیہ والوں کی کارستانی تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم نے غیرجمہوری عمل کے ذریعہ حکومت گرانے کی مخالفت کی۔ البتہ پیپلزپارٹی کے غیرجمہوری اقدامات اور حکومتی معاملات میں کرپشن کمشن کے عمل کی مزاحمت کریں گے اور ایوانوں کے اندر اور باہر انہیں ایکسپوز کریں گے۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے اندر انتخابی عمل کو پارٹی کو مضبوط بنانے کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ تبدیلی کے عمل کا آغاز شہباز شریف سے نیچے تک عام عہدیداران کی رخصتی سے ہو چکا ہے اور نئے انتخاب میں بھی اچھے اور فعال لوگوں کو آگے لا کر مئوثر بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ حکومت نے ایک سال عدلیہ کی آزادی میں تاخیر سے ضائع کر دیا۔ صدر زرداری چیف جسٹس افتخار چودھری سے خوفزدہ تھے آج کی عدلیہ آزاد و خودمختار اور عدل و انصاف کے عمل کی جانب پیش رفت ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے آئین توڑا ہے۔ ان کا ٹرائل ہونا چاہئے اس کیلئے عوامی جدوجہد کا انحصار پارٹی فیصلہ پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام نہ بھایا ہے نہ بھائے گا۔ ہمیںی خود ہی اپنے نیوکلیئر پروگرام پر بیان بازی کا سلسلہ بند کرنا چاہئے۔ انہوں نے شوگر ملز مافیا پر شدید تنقید کی اور کہا کہ بدقسمتی سے ملز مالکان میں ان کی پارٹی کے ذمہ داران بھی شامل ہیں لیکن پنجاب حکومت نے ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اسے کنٹرول کیا۔

ای پیپر دی نیشن