پاکستان اس وقت مختلف زمینی، آسمانی آفات اور سیاسی و معاشی مشکلات کی زد میں ہے۔ ایک طرف بارشوں اور سیلاب نے تاحد نگاہ وہ تباہی پھیلائی ہے کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔ دوسری جانب ڈینگی وائرس نے پورے پنجاب کو، خصوصاً لاہور کو اس بُری طرح جکڑ لیا ہے کہ ”نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن“ والی حالت ہو گئی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہر سیاسی جماعت ان آفات کو اپنی دکانداری چمکانے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ ان تمام مصیبتوں اور مشکلات کی کچھ وجوہات تو ظاہری ہیں جو تقریباً ہر ذی شعور پر ہویدا ہیں .... لیکن کچھ باطنی اسباب بھی ہیں جنہیں صرف اہل نظر اور صاحب عرفان ہی سمجھ سکتے ہیں۔ انہی صاحبانِ عرفان اور اہلیان نظر میں چورہ شریف کے سجادہ نشین قبلہ پیر سید کبیر علی شاہ صاحب ہیں جنہوں نے اس خطہ پاک میں پھیلتی ہوئی بے حسی، خود غرضی، لالچ، حرص و ہوس اور فحاشی و عریانی کو تمام آفات اور مشکلات کا سبب بتایا ہے۔ اور اسی بے پردگی اور دیگر کوتاہیوں کے سدِ باب کے لیے انہوں نے ”چادر اوڑھ تحریک“ کا آغاز کیا ہوا ہے۔ پاکستانی خواتین ماشاءاللہ جوق در جوق پیر سید کبیر علی شاہ صاحب کی اس تحریک کے زیر اثر حجاب اور چادر کے سائے میں چلی آ رہی ہیں۔ ہمارے ملک کی ”ایلیٹ کلاس“، میں خواتین کی اکثریت ایک طرف تو معاشرے میں عورت کے جائز مقام اور حقوق کے کھوکھلے نعرے لگاتی ہیں اور دوسری طرف سر پر دوپٹہ تک اوڑھنا پسند نہیں فرماتیں۔ ان خواتین کو کون بتائے کہ اب تو امریکہ اور یورپ میں بھی مسلمان خواتین حجاب کی پابند ہو رہی ہیں اور جس ملک اور حکومت نے بھی خواتین کو حجاب سے منع کرنے یا اسے غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی ہے وہاں کی مسلم خواتین نے باقاعدہ اس حکومت کے خلاف احتجاج کیا ہے اور حجاب کو قانونی حیثیت دلوائی ہے۔ میں بھی سمجھتا ہوں کہ قبلہ پیر کبیر علی شاہ صاحب کا کردار قابل ذکر ہے کیونکہ آپ ہر سال یورپ، امریکہ اور کینیڈا کا تبلیغی دورہ پورے کرّوفر اور شان و شوکت سے کرنے جاتے ہیں اور صحیح معنوں میں تبلیغ کا حق ادا فرماتے ہیں۔ پاکستانی خواتین کو کم از کم یورپ و امریکہ کی ان پردہ پوش خواتین کو دیکھ کر ہی خود پر حجاب لازم کر لینا چاہیے۔ پیر سید کبیر علی شاہ صاحب کی ”چادر اوڑھ تحریک“ ہمارے ملک اور قوم کی درست سمت میں رہنمائی کرتی ہے اور یہ تحریک ہمیں زمینی و آسمانی آفات سے نجات بھی دلا سکتی ہے۔