امریکہ کے ساتھ تعلقات پر مصر کے صدر مرسی کا دانشمندانہ مو¿قف اور ہماری قیادت کی آزمائش جنرل اسمبلی کا اجلاس مسلم ممالک کے کسی مشترکہ مو¿قف پر منتج ہو سکتا ہے؟

مصر کے صدر محمد مرسی نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ 1978ءکے معاہدہ¿ کیمپ ڈیوڈ کے مطابق وہ فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرکے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کو یقینی بنائے جبکہ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ پر عمل کرکے ہی مصر اور اسرائیل کے مابین تعلقات سازگار ہو سکتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے مصری صدر نے واضح کیا کہ امریکہ فلسطین سے متعلق اپنا وعدہ پورا کریگا تو مصر بھی اسرائیل سے سازگار تعلقات کیلئے اپنا وعدہ نبھائے گا۔ مصر کے صدر مرسی نے یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے نیویارک روانہ ہونے سے پہلے امریکی اخبار کو اپنے انٹرویو میں باور کرایا کہ امریکی حکومت نے عوامی ٹیکس کے پیسوں سے اب تک اگر نفرت نہیں تو ناپسندیدگی ضرور خریدی ہے‘ وہ عرب دنیا کیلئے اپنی پالیسی تبدیل کرے تاکہ اطراف کے تعلقات میں بہتری پیدا ہو۔
مسلم دنیا کے بالخصوص تین سربراہان ایسے حالات میں یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں جب انہیں امریکہ کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں کٹھن صورتحال کا سامنا ہے چنانچہ ان سربراہان کی حقیقی معنوں میں آزمائش ہے کہ وہ جنرل اسمبلی میں خطاب کے وقت اپنے ملکی اور قومی مفادات کی نگہداشت اور اسلامی تشخص کے حوالے سے کس مضبوطی اور ثابت قدمی اور قومی عزم کے ساتھ اپنا موقف پیش کرتے ہیں۔ ان میں پاکستان کے صدر مملکت آصف علی زرداری کو ان حالات میں پاکستان کی نمائندگی کےلئے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونا پڑا ہے‘ جب گستاخانہ فلم کی تیاری اور ریلیز کے معاملہ میں پاکستان میں مسلم امہ کے دیگر ممالک سے بھی زیادہ سخت ردعمل سامنے آرہا ہے اور قوم کے جذبات مجروح ہی نہیں‘ مشتعل بھی ہیں جس کا اندازہ خود عشق رسول کانفرنس میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی تقریر اور دیگر سیاسی رہنماﺅں کے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے وفاقی کابینہ کے فیصلہ کی بنیاد پر اپنی تقریر میں گستاخانہ فلم کے معاملہ میں قومی جذبات کی عکاسی کرنی ہے۔ وہ یقیناً قومی جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے جنرل اسمبلی میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف جیسے جذبات کا اظہار بھی کرینگے تو بھی امریکہ کو ان کا یہ موقف ناگوار گزر سکتا ہے جبکہ امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے پیپلز پارٹی کی اتحادی پارٹی اے این پی کے وزیر غلام احمد بلور کے بیان پر پہلے ہی پاکستانی قیادت تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ اس حوالے سے یقیناً صدر زرداری کی آزمائش ہے کہ وہ گستاخانہ فلم کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے قوم کی توقعات پر کیسے پورا اترتے ہیں۔ اسی طرح ایران کے صدر محمود احمدی نژاد بھی ایسی ہی آزمائش کے مراحل میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں‘ کیونکہ اس وقت ایران کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایران اور امریکہ کے مابین سخت کشیدگی کی فضا قائم ہے جبکہ صدر احمدی نژاد نے امریکہ روانہ ہونے سے قبل ایران کے ایٹمی راز افشا کرنے کے معاملہ میں اقوام متحدہ کی انسپکشن ٹیم کی بھی خوب خبر لی ہے اور اسے بدعہد قرار دیا ہے جس کے باعث ایران کا اقوام متحدہ کے ساتھ بھی کشیدہ ماحول قائم ہو چکا ہے چنانچہ کشیدگی کے اس ماحول میں یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کے دوران اپنے ملکی اور قومی مفادات کے معاملہ میں سرخرو ہونا محمود احمدی نژاد کی آزمائش ہے جس میں وہ یقیناً سرخرو ہونگے کیونکہ اس خطہ میں امریکی توسیع پسندانہ عزائم کے معاملہ میں ان کا موقف کسی سے پوشیدہ نہیں اور وہ پاکستان کی قیادتوں کو بھی متعدد بار یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ امریکی مفادات کے بجائے اپنے ملکی اور قومی مفادات کی بنیاد پر فیصلے کریں۔ اسی طرح مصر کے نومنتخب صدر محمد مرسی تو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے حوالے سے امریکہ کو باقاعدہ چیلنج دے کر نیویارک روانہ ہوئے ہیں چنانچہ نیویارک ٹائم کو دیئے گئے انٹرویو میں ان کا واضح اور ٹھوس موقف سامنے آنے کے بعد ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران امریکہ کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اپنے ملک یعنی مصر کے مفاد کو پیش پیش رکھیں گے۔
محمد مرسی مصر کے صدر کیلئے اگرچہ براہ راست امریکہ کا انتخاب نہیں ہیں تاہم انکے اقتدار میں آنے کا پس منظر مصر کے مطلق العنان صدر حسنی مبارک کیخلاف دو سال قبل شروع ہونیوالی خونیں عوامی تحریک ہے جسے امریکہ کی اپنی ضرورت کے تحت امریکی حمایت حاصل تھی۔ بے شک اس تحریک کے نتائج امریکی خواہشات کے برعکس برآمد ہوئے ہونگے تاہم مصر میں رونما ہونیوالے انقلاب کے محرکات سے امریکہ خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا جبکہ محمد مرسی جس پلیٹ فارم (اخوان المسلمین) سے مصر کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اسکے پیش نظر وہ اپنے ملکی اور قومی معاملات پر امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود کسی قسم کی مفاہمت نہیں کر سکتے جو مصری مفاد کے حق میں نہ ہو۔ اگرچہ اخوان المسلمین اب پہلے جیسی روایتی تنگ نظر مذہبی جماعت نہیں اور اس پارٹی کی قیادت اب ملکی ترقی اور اقوام عالم کے ساتھ روابط قائم رکھنے کیلئے جدید دور کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتی ہے اور اسی بنیاد پر مصر کے صدارتی انتخاب میں اسکی کامیابی ممکن ہوئی ہے۔ تاہم اسلام کی نشاة ثانیہ اور ملک کے مفادات کا تحفظ اب بھی اس پارٹی کی مطمح نظر ہے اور اسی کی بنیاد پر صدر مرسی نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر امریکہ کو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی یاد دلانا ضروری سمجھا ہے جس کے تحت مصر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی بنیادی شرط ہی یہی رکھی گئی تھی کہ امریکہ فلسطین کو آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم کریگا۔ اگر امریکہ نے اس معاہدہ کے 34 سال بعد بھی ابھی تک فلسطین کی آزاد اور خودمختار حیثیت کو تسلیم نہیں کیا اور وہ بدستور اسرائیل کی سرپرستی کرکے مشرق وسطیٰ کے امن کو تاراج کر رہا ہے تو اس سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ جنرل اسمبلی کے موجودہ اجلاس میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے سلسلہ میں کوئی یقین دہانی کراکے اس پر عمل پیرا بھی ہو گا‘ یقیناً اسی تناظر میں مصر کے صدر محمد مرسی نے امریکہ سے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو روبہ عمل لانے کا تقاضا کیا ہے اور ساتھ ہی یہ باور بھی کرایا ہے کہ وہ عرب دنیا کیلئے اپنی پالیسی تبدیل کرے۔صدر مرسی نے اپنے بیان میں درست کہا ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی نے اسے حالیہ چند سالوں میں نفرت اور تنقید کا مقام ہی عطا کیا ہے‘ کیا امریکی عوام یہی چاہتے ہیں؟
یقیناً یہی وہ موقع ہے کہ پاکستان سمیت جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونیوالے تمام مسلم ممالک کے سربراہان بشمول مصر کے صدر محمد مرسی اور ایران کے صدر محمود احمدی نژاد‘ ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں اور مسلم امہ کے بارے میں منفی سوچ اور اسکے ساتھ مغربی دنیا کا منافقانہ رویہ تبدیل کرنے میں کچھ پیش رفت دکھائیں۔امریکی خارجہ پالیسی کو بھی کھل کر تنقید کا نشانہ بنائیں اور اگر مسلم ممالک اپنے اپنے مفاد کے حصول میں الگ الگ بٹے رہے تو اپنا موقف منوانے اور اپنے باشندوں کے جذبات کی موثر ترجمانی کرنے میں ناکام رہےں گے۔کیا ایک جائز مقدمے کو مسلم دنیا اکٹھے ہو کر عالمی سطح پر لڑ اور جیت سکے گی؟جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک تمام مسلمان ممالک کے رہنماﺅں کی یہی اصل آزمائش ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن