امریکی اور یہودی ایک عرصے سے ایسی ناپاک جسارتیں کر رہے ہیں کبھی گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کروایا جاتا ہے، کبھی فٹ پاتھ پر خانہ کعبہ کی تصویر بنائی جاتی ہے، کبھی لباس پر قرآنی آیات پرنٹ کی جاتی ہیں، کبھی قرآن کو جلایا جاتا ہے۔ کبھی شراب خانوں کی عمارت کعبة اللہ کی طرح بنائی جاتی ہے۔ کبھی جوتوں پر مقدس اسماءلکھے جاتے ہیں اور کبھی گستاخانہ فلم بنا کر مسلمانوں کی غیرت ایمانی کو للکارا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کفار پریشان ہیں کہ اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا کرنے اور اس طرح کی ناپاک جسارتیں کرنے کے باوجود غیر مسلموں کی بڑی تعداد مسلمان ہو رہی ہے۔ کفار اس صورت حال پر سیخ پا ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کا مکروہ چہرہ اب کھل کر دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ ایسی ناپاک جسارتوں کے پیچھے یہودی ذہنیت اور سرمایہ کار فرما ہے۔ ایسی حرکتوں سے وہ مسلمانوں کی غیرت ایمانی کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ 9/11 کا ڈرامہ رچا کر مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر ان کے خلاف ایک جنگ شروع کی گئی ہے اور دہشت گردی کو جواز بنا کر مسلم ممالک کو عدم استحکام کا شکار کیا جارہا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے گٹھ جوڑ کے تحت ملعون پادری کی ناپاک جسارت پر ردعمل کے طور پر پوری دنیا کے مسلمانوں نے کفار کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان کے درمیان خواہ جتنے بھی اختلافات ہوں لیکن جب ناموسِ رسالت کی حفاظت کا وقت آتا ہے تو تمام مسلمان ایک ہوجاتے ہیں
اپنا سب کچھ گنبد خضرا
کل بھی تھا اور آج بھی ہے
کفار ایسی ناپاک جسارتوں سے ہمارا جذبہ¿ ایمانی جانچنے کے علاوہ ہمیں اشتعال بھی دلاتے ہیں تاکہ مسلمان مشتعل ہوکر جب اپنا ردعمل ظاہر کریں تو وہ دنیا کو دکھائیں کہ یہ مسلمان شدت پسند، انتہا پسند اور دہشت گرد ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ تمام دینی و سیاسی جماعتیں اور دیگر تنظیمیں ہر شہر کے مرکز میں کسی ایک جگہ جمع ہوتے اور پُرامن احتجاج اور اپنی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے۔ نہ کوئی توڑ پھوڑ ہوتی، نہ کوئی زخمی و جاں بحق ہوتا، نہ نجی و قومی املاک کا نقصان ہوتا۔ اگر کوئی شرپسند ایسی حرکت کرتا تو جلوس کا شرکاءخود اس کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کرتے۔ ترکی اور دیگر کئی ممالک میں ایسے پُرامن احتجاج ہوئے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے شہروں میں بے شمار پُرامن مظاہرے ہوئے لیکن میڈیا نے صرف بڑے شہروں میں ہونے والے پُرتشدد واقعات کو ہی نمایاں کوریج دی۔ ایک غیر ملکی اسلامی تنظیم نے قرآن پاک کے انگریزی ترجمے والے قرآن پاک بڑی تعداد میں تقسیم کئے۔ بہتر ہوتا کہ ہم اربوں روپے کا نقصان کرنے کے بجائے پُرامن احتجاج کے ساتھ ایک سیرت ریسرچ سنٹر قائم کرکے کفار کی ناپاک جسارتوں کا جواب مدلل انداز میں پیش کرتے۔ ایک ایسا چینل قائم کیا جاتا جس کے ذریعے صحیح اسلامی خدوخال دنیا کے سامنے پیش کئے جاتے۔ او آئی سی اور مسلم ممالک کے حکمران مشترکہ مو¿قف اختیار کرتے ہوئے دنیا کے سامنے احتجاج کرتے۔ یوں دنیا کے سامنے یہ پیغام جاتا کہ پوری دنیا کے مسلمان آقائے دو جہاں کی ناموس کے تحفظ کے لئے ایک ہیں۔
مسلمانوں کو دیواروں سے سر پھوڑنے کی بجائے اپنے اصل ہدف کو نشانہ بنانا چاہئے اور جذبہ¿ ایمانی پیدا کرنا چاہئے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم انتشار و افتراق سے نکل کر اتفاق و اتحاد کو اپناتے ہوئے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔