سیف اللہ سپرا ....
عمائمہ ملک پاکستان کی شوبز انڈسٹری کا ایک بڑا نام ہیں۔ انہیں شوبز انڈسٹری کو جوائن کئے صرف تین سال کا عرصہ ہوا ہے۔ اس انتہائی کم عرصے میں وہ اپنی پُرکشش شخصیت‘ذہانت اور محنت کی بدولت آج شوبز کے آسمان پر ایک ستارے کی مانند چمک رہی ہیں۔ انہوں نے تقریباً تین سال قبل معروف فلم ڈائریکٹر شعیب منصور کی فلم سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی فلم ہی سُپرہٹ ہو گئی۔ اس فلم میں ان کی اداکاری اس قدر پسند کی گئی کہ انہیں ابھی تک دنیا بھر سے بہترین اداکارہ کے ایوارڈز مل رہے ہیں۔ ان کی یہ فلم نیویارک فلم فیسٹیول‘ لندن فیسٹیول اور آسٹریلین سکرین ایوارڈز سمیت متعدد فلم فیئرز میں پیش کی گئی جن میں سے لندن فلم فیسٹیول اور نیویارک فلم فیسٹیول سمیت متعدد فیسٹیولز میں انہیں بہترین اداکارہ کے ایوارڈز ملے۔ عمائمہ ملک پاکستان کی واحد اداکارہ ہیں جنہیں اپنے کیریئر کے شروع میں بالی وڈ کی بڑی فلموں میں کام ملنے لگا ہے۔ ان کے مرکزی کردار کی ایک بھارتی فلم ’’شیر‘‘ مکمل ہے جس میں ان کے مدمقابل ہیرو کا کردار سنجے دت نے ادا کیا ہے۔ ان کی ایک اور بڑی بھارتی فلم ’’چٹھیاں‘‘ ہے جس کی شوٹنگ عنقریب شروع ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے بھارت میں متعدد پراجیکٹ سائن کئے ہیں۔ عمائمہ ملک بہترین اداکارہ کیساتھ ساتھ ایک بہترین ماڈل بھی ہیں۔ اپنی بہترین ماڈلنگ کی بدولت ہی وہ لکس اور سام سنگ جیسی بڑی کمپنیوں کی برینڈ ایمبسیڈر بن چکی ہیں۔ پاکستان کی اس مقبول ترین ماڈل اور اداکارہ کے ساتھ گزشتہ دنوں ایک نشست ہوئی جس میں ان کی فنی و نجی زندگی کے علاوہ شوبز انڈسٹری کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی جس کے منتخب حصے قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کئے جا رہے ہیں۔
س:۔ آپ شوبز میں کیسے آئیں؟
ج:۔ اداکاری کا مجھے بچپن سے ہی شوق تھا۔ زمانۂ طالبعلمی میں پڑھائی کیساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی جس پر میری سہیلیاں اور اساتذہ میری حوصلہ افزائی کرتیں۔ پڑھائی سے جب فارغ ہوئی تو شعیب منصور نے اپنی فلم میں مجھے کام کی پیشکش کی جو میں نے قبول کر لی۔ فلم کا سبجیکٹ اچھا تھا اور پھر ڈائریکٹر نے اس پر محنت بھی خوب کی۔ چنانچہ یہ فلم سپرہٹ ہوئی۔ اس فلم میں میری اداکاری لوگوں نے پسند کی اور مجھے ہر طرف سے کام کی آفرز آنے لگیں‘ لیکن میں نے صرف معیاری پراجیکٹ سائن کئے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ماڈلنگ ہو یا اداکاری‘ زیادہ تعداد میں غیرمعیاری پراجیکٹ کرنے سے تھوڑی تعداد میں معیاری پراجیکٹس بہتر ہیں۔ میں نے پاکستان میں صرف ایک معیاری فلم کی ہے اور اس پر ابھی تک دنیا بھر سے ایواڈز سمیٹ رہی ہوں۔
س:۔ آپ کی آجکل کیا مصروفیات ہیں؟
ج:۔ بھارت کی ایک فلم حال ہی میں مکمل کی ہے اور کچھ دنوں تک بھارت کی دوسری فلم ’’چھٹیاں‘‘ کی عکسبندی شروع ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ لکس اور سام سنگ کی برینڈ ایمبسیڈر ہوں۔ ان دو کمپنیوں کے کمرشلز بھی شوٹ ہوتے رہتے ہیں۔ میں نے حال ہی میں بھارت کے کچھ مزید پراجیکٹ سائن کئے جن پر کام پہلے پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد شروع کروں گی تاکہ کام کے معیار پر اثر نہ پڑے۔ ماڈلنگ ہو یا اداکاری‘ میں نے معیار پرکبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
س:۔ کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے کیریئر کے آغاز میں ہی عالمی سطح کے ایوارڈز وصول کر رہی ہیں؟
ج:۔ اگر کوئی شخص محنت کرے اور معیاری کام کرے تو لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ میں نے فلم میں اچھا کام کیا ہے جو لوگوں نے پسند کیا اور جس پر مجھے ایوارڈز مل رہے ہیں۔ میں ان لوگوں کی شکرگزار ہوں جنہوں نے میرے کام کو پسند کیا اور مجھے عزت ملی۔ نیویارک فلم فیسٹیول میں میرے مدمقابل فریدہ پنٹو اور پرینیتی چوپڑا تھیں مگر مجھے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ملا جبکہ لندن فلم فیسٹیول میں میرے مقابلے میں شلپاشیٹھی اور شبانہ اعظمی تھیں مگر ایوارڈ مجھے ملا۔ میں اپنا کام مزید بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہوں تاکہ آسکر ایوارڈز بھی حاصل کر سکوں۔ حال ہی میں مجھے ایک ادارے کی طرف سے بیوٹی آف دی ائیر ایوارڈ ملا جس پر میں بہت خوش ہوں۔
س:۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے حالات پر آپ کیا تبصرہ کریں گی؟
ج:۔ ماضی میں بہت اچھی فلمیں بنتی رہی ہیں مگر بدقسمتی سے کئی سالوں سے اس انڈسٹری کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا۔ اس انڈسٹری سے لوگوں نے بہت سا مال و دولت کمایا مگر اس پر پیسہ خرچ نہیں کیا۔ نئے کیمرے اور جدید مشینری نہیں خریدی گئی۔ فلم سٹوڈیوز کی حالت بھی ٹھیک نہیں کی گئی۔ سب سے بڑھ کر یہ بات تھی کہ فلم کے سبجیکٹ پر توجہ نہیں دی گئی۔ زیادہ تر گنڈاسے اور فحاشی پر انحصار کیا گیا۔ بدمعاشوں کے موضوعات پر فلمیں بنائی گئیں اور یوں غیرمعیاری فلموں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ فیملیوں نے فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں اور سینما کا کاروبار تقریباً ختم ہو گیا۔ چنانچہ سینما مالکان نے سینماگھروں کو گرا کر شاپنگ پلازے تعمیر کرنا شروع کر دیئے۔ اب ایک طرف تو سینماگھروں کی کمی کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف سینماگھروں کی تعداد بھی انتہائی کم ہو گئی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر اس دور میں بھی اگر اچھے اور فیملی موضوعات کا انتخاب کیا جائے اور ان پر معیاری فلمیں بنائی جائیں تو اس دور میں بھی لوگ فلمیں دیکھنے کیلئے سینماگھروں کا رخ ضرور کریں گے۔ میری فلم جس پر مجھے دنیا بھر سے ایوارڈز مل رہے ہیں‘ اس بحرانی دور میں ریلیز ہوئی۔ اس کے علاوہ ہمایوں سعید کی فلم ’’میں ہوں شاہد آفریدی‘‘ آمنہ شیخ کی لمحہ اور نصیرالدین شاہ کے مرکزی کردار کی ’’زندہ پھاگ‘‘بھی لوگ پسند کر رہے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اب کچھ نئے لوگ فلمیں بنا رہے ہیں اور یہ اچھی اور معیاری فلمیں ہیں۔ اگر اسی معیار کی فلمیں بنائی گئیں تو فلم انڈسٹری کے حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں۔س:۔ آپ فرصت کے لمحات کیسے گزارتی ہیں؟
ج:۔ کام اس قدر زیادہ ہے کہ فرصت کے لمحات ملتے ہی نہیں ہیں۔ کچھ فرصت مل جائے تو ریسٹ کرتی ہوں اور اپنے کام کو بہتر بنانے کیلئے اپنے آپ کو تیار کرتی ہوں۔
س:۔ شادی کب کریںگی؟
ج:۔ فی الحال شادی کا کوئی ارادہ نہیں۔ ابھی تو میں نے کیریئر کا آغاز کیا ہے‘ ابھی میں نے بہت کچھ کرنا ہے اور اپنے دامن میں کامیابیاں سمیٹنی ہیں۔