میں نے کل شب اپنی یادوں کی کتاب مقدس کو کھولا تو اس کے ایک صفحے پر40 سال پہلے کا ایک نام بھی لکھا ہوا نظر آیا۔ میرے یہ دوست سی ایس ایس کرنے کے بعد پولیس سروس آف پاکستان میں چلے گئے تھے اس لئے ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ کم ہوتا چلا گیا لیکن ان کے بارے میں معلومات ملتی رہیں کہ محکمہ پولیس کی ٹیڑی راہوں سے دامن بچا کر ہمارا یہ دوست سیدھے راستے پر چلتا رہا اور رشوت کی کان میں جا کر بھی دیانت داری سے اپنے فرائض ادا کرنا اس کا نصب العین رہا۔دیانت داری کا ثمر اللہ تعالیٰ کامیاب اور نیک اولاد کی صورت میں دیتا ہے ۔ ہمارے دوست کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی نیک سیرت اور صالحہ بیٹی سے نوازا جس نے امریکہ میں طویل عرصہ رہ کر اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی مگر اپنے اندر کے مسلمان اور پاکستانیت کو بھی زندہ رکھا۔ ہمارے دوست اپنی بیٹی کو گریجویشن کی تکمیل پر تقریب کی شرکت کے لئے امریکہ گئے تو اپنے اس مختصر دورہ کی رو داد ایک سفر نامہ کی صورت میں محفوظ کر دی۔ تا ہم ابھی یہ سفر نامہ شائع ہونا ہے۔ اس سفر نامے کی انفرادیت یہ ہے کہ ظاہر میں تو یہ امریکہ کا سفر نامہ ہے لیکن اس زیر طبع کتاب کے ہر صفحے پر پاکستان کی خوشبو پھیلی ہوئی ۔ امریکہ میں عارضی یا مستقل رہنے والے پاکستانیوں کی محبت کی میٹھی میٹھی خوشبو۔میرا خیال ہے کہ اس مرحلے پر ہم اپنے دوست کا نام ظاہر کر دیں۔ میرے ہم نام میاں محمد آصف کے سفر کی منزل مقصود، ان کے خوابوں کی دنیا اور ان کے ارمانوں کا گہوارہ’’ مائونٹ ہولی اوک‘‘ وہ کالج تھا جس کالج نے ان کی بیٹی ایمن کو احترام آدمیت کے نئے مفہوم سے آشنا کیا۔ احترام آدمیت کا دوسرا نام احترام رائے ہے۔ اگر ہم زندگی میں دوسروں کی رائے کا احترام کرنا سیکھ جائیں تو ہمارا یہ معاشرہ جنت مثال بن سکتا ہے۔ آیئے اب میاں محمد آصف کے قلم کے کیمرے سے کھینچی ہوئی وہ تصویر دیکھتے ہیں، جو اس تقریب کے احوال ہمارے سامنے رکھے گی جس تقریب میں ان کی قابل فخر بیٹی کو گریجوایشن کی سند عطاء کی گئی۔ میاں آصف لکھتے ہیں کہ نہیں معلوم کہ آج کا دن زیادہ روشن ہے کہ میری آنکھ یا پھر دونوں یہ دن روشن بھی ہے اور یاد گار بھی کیوں کہ اس کے افق پر طلوع ہونے والا سورج آج امید کی مراد بر لایا ہے۔ کیوں کہ آج ہم باد صبا کی صورت اپنی اڑان کے جوبن پر ہے۔ کیوں کہ آج ہم باد صبا کے ہمر کاب ہیں جو صبح ہی سے مشامِ جاں کو معطر کیے ہوئے ہے۔‘‘ غور فرمایئے کہ یہ ایک باپ کا دل ہے جو اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کی سند ملنے پر اتنا خوش اور سر مست ہے کہ اسی خوشی اور سر مستی میں اس نے بلند پرواز پرندوں کے ساتھ فضا میں اڑنا شروع کر دیا ہے۔ ایسی سچی خوشی صرف بچوں کے والدین کو ہی ہو سکتی ہے۔ کاش ہمارے عہد کے بچے بھی اپنے والدین کو ایسی ہی محبت واپس لوٹا سکیں جب بڑھاپے میں والدین کو اپنے بچوں کے سہارے کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ میاں محمد آصف نے امریکہ میں اپنے مشاہدات کے دوران بہت کچھ سیکھا، سمجھا اور جانا۔ جب نیو یارک میں انہوں نے امریکہ کی آزادی کا مجسمہ دیکھا تو یہ متاثر کن منظر دیکھ کر ان کو دل میں خیال آیا کہ ’’ امریکہ اپنی آزادی اور تصور آزادی کی حفاظت کے لئے دنیا میں کسی بھی جگہ ہر طرح کے اقدامات کرنے کے لئے آزاد ہے مگر دوسروں کے حوالے سے امن کا تصور آزادی بڑا جامد ہے۔ جس سے اہل شعور پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے ۔ لیکن امریکہ کہاں کسی کو خاطر میں لاتا ہے ۔ یہی تو ہوتی ہے طاقت کی زبان۔‘‘ امریکہ اپنی آزادی کے بارے میں حد درجہ حساس ہے مگر ہمیں اپنی آزادی کا پاس کیوں نہیں۔ہمیں بھی اپنی آزادی کی حرمت ویسی ہی عزیز ہونی چاہئے جیسے امریکیوں کو ہے۔ لیکن تعلیم کے شعبہ میں ترقی اور معاشی استحکام کے بغیر ہم اپنی آزادی کی حفاظت کا حق ادا نہیں کر سکتے ۔ میاں محمد آصف نے اپنے سفر کے دوران جگہ جگہ یہ بھی محسوس کیا کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی پاکستان کے حوالے سے ہم سے بھی زیادہ فکر مند رہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان سے ان کے لئے اچھی خبریں پہنچیں۔ میاں صاحب چونکہ اس وقت خیبر پی کے میں ایڈشنل آئی جی پولیس ہیں۔ اس لئے انہوں نے وہاں کے اپنے تجربات کی روشنی میں اہل پاکستان کو بتایا کہ خیبر پی کے کی صوبائی حکومت اداروں کے کام میں مداخلت نہیں کر رہی اور صوبے میں آرگنائزڈ اور ادارتی کرپشن کو ختم کر کے سروس ڈلیوری کو بہتر بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ تھانوں میں پٹواری کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ میاں آصف کا یہ کہنا بھی سو فیصد درست ہے کہ اگر ہمیں بطور قوم آگے بڑھنا ہے تو پھر اپنی ذات کو چمکانے اور ذاتی کارناموں کو اجاگر کرنے کے بجائے ہمیں اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ یہاں ادارے نہیں چند شخصیات اہم ہیں ۔ سیاست پر بھی چند گھرانوں کی اجارہ داری ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں موجودہ جاگیردارانہ نظام بھی ہے۔ محنت کش طبقے کے ساتھ بھی ہمارے صنعت کاروں کا سلوک ویسا ہی ہے جیسا جاگیرداروں کا اپنے مزارعین کے ساتھ ۔ اس استحصالی اور طبقاتی نظام کو ختم کرنے کے لئے ہمیں اسلام کی تعلیمات کی طرف واپس لوٹنا ہو گا جو عدم و مساوات کی ضامن ہیں اور جن کا تذکرہ بانی پاکستان قائد اعظم نے بار بار اپنی تقاریر میں کیا تھا۔