اندیشہ ہائے دُور دراز

سیلاب کا زور اگرچہ بتدریج کم ہو رہا ہے‘ تاہم اس کی تباہ کاریوں پر قابو پانے میں ایک عرصہ لگے گا۔ متاثرین کی بحالی اور بے گھر ہونے والوں کو اپنے گھروں کو واپسی کیلئے کتنا عرصہ درکار ہوگا‘ اس ضمن میں کئی قسم کے اندیشہ ہائے دور دراز لاحق ہیں۔ کیا حکومتی دعوے عملی شکل اختیار کر پائیں گے‘ کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ حکومتی زعماء متاثرین کے پاس اُڑتے اُڑتے جاتے ہیں اور جذباتی تقریریں کرکے انہیں طفل تسلیاں دے آتے ہیں۔ ’’منتظمین‘‘ جعلی خیموں میں جعلی ’’متاثرین‘‘ کو براجمان کرکے حکمرانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں جو پہلے ہی عوام کی طرف آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ وزیروں‘ مشیروں اور اراکین اسمبلی کی فوج ظفر موج حالات سے بے خبر اپنی ’’بقائ‘‘ کی جنگ لڑ رہی ہے کیونکہ عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں اور ان کے نتیجے میں پیدا شدہ ’’صورت حال‘‘ سے ان کا راج سنگھاسن ڈولنے لگا تھا۔ حکمران اپنا اعتبار اور ساکھ کھو چکے ہیں۔ یہی وجہ کہ وہ سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے جن ’’اقدامات‘‘ کا اعلان کرتے پھرتے ہیں‘ متاثرین ان پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ایک لے دے کر فوج ایسا ادارہ ہے جو اس ساری صورتحال میں ہنگامی بنیادوں پر جانفشانی سے سرگرم عمل ہے حالانکہ وہ ضرب عضب میں بھی جاں فروشی کی داستانیں رقم کرنے میں مصروف ہے۔ ہر چند اس آبی آفت کو بھارتی آبی جارحیت سے موسوم کیا جا رہا ہے‘ لیکن کیا ہماری حکومتیں اس مسئلہ کی پیش بندی کر سکیں؟ حالانکہ اس طرح کی صورتحال تقریباً ہر سال درپیش ہوتی ہے‘ لیکن ہماری کسی بھی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کئے۔ بارشوں اور سیلابوں کے اس فالتو پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی خاطرخواہ انتظام نہ کیا گیا۔ بدقسمتی سے اگر کالاباغ ڈیم نہیں بن سکتا تو کئی دوسرے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر اس کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے‘ لیکن لگتا ہے نہ تو حکومت ہی اس کام کی اہل ہے اور نہ ہی متعلقہ محکمہ۔ ویسے بھی حکومتوں کو اس طرح کے ’’دور رس‘‘ نتائج کے حامل منصوبوں میں کوئی فوری سیاسی اور انتخابی فائدہ نظر نہیں آتا۔ اس طرح کی منصوبہ بندی کی بجائے حکومتیں ہمیشہ ’’حرکیات‘‘ پر یقین رکھتی ہیں جن کا فوری فائدہ آئندہ ہونے والے الیکشن میں ہو۔ ’’اندیشہ ہائے دور دراز‘‘ میں تو وہ سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار بھی مبتلا ہیں‘ جو عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں کو بنظر غائر دیکھ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک دونوں دھرنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ گوکہ ان دھرنوں کے پُرجوش حامی اب بھی کسی ’’نتیجے‘‘ پر پہنچنے کیلئے پُرعزم ہیں‘ لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ ان کو ’’یقین دہانی‘‘ کروانے والے ایک مخصوص مقام تک لاکر انہیں ’’اللہ کی آس‘‘ پر چھوڑ گئے ہیں۔ مقصد شاید‘ خودسر او لااُبالی حکمرانوں کو ’’ڈراوا‘‘ دینا تھا جو دیا جا چکا ہے۔ حکومت خود بھی ’’آنے والی تھاں‘‘ پر آچکی ہے اور اب شرکائے دھرنا کیلئے کوئی باعزت‘ محفوظ اور رکھ رکھائو والا واپسی کا راستہ ڈھونڈا جا رہا ہے۔ بظاہر بے شک ان دھرنوں نے کوئی ’’خاطرخواہ‘‘ کامیابی حاصل نہیں کی‘ تاہم یہ بھی کیا کم ہے کہ ان دھرنوں میں کی جانے والی تقاریر کی وجہ سے عوام اپنے سیاسی اور سماجی حقوق کے حوالے سے نسبتاً زیادہ باخبر ہو چکے ہیں اور ایک طرح کی سیاسی اور سماجی تربیت سے بہرہ ور بھی۔ پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت‘ جو پہلے سیاسی اور سماجی مکالمے میں حصہ لینے سے کتراتی تھی‘ اب بیانگ دہل اپنے خیالات و نظریات کا اظہار کرنے لگی ہے۔ اور تو اور آپ ایک مزدور‘ کسان‘ ٹھیلے والا‘ نیم خواندہ چھوٹا سرکاری ملازم اور گھریلو خواتین تک اس حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ حالات میں انقلابی تبدیلیاں لائے بغیر کوئی سماجی‘ معاشی اور سیاسی بہتری ممکن نہیں۔ کراچی میں رونما ہونے والا حالیہ واقعہ‘ جس میں مسافروں نے حکومتی ایم این اے اور اپوزیشن کے سنیٹر کو محض اس وجہ سے طیارے سے اتار دیا کہ وہ تاخیر سے پہنچے تھے اور ان کی وجہ سے دیگر مسافروں کو طویل انتظار کی کوفت سے گزرنا پڑا تھا۔ اس امر کا ضامن ہے کہ اپنے حقوق کے حوالے سے عام لوگوں میں سماجی اور سیاسی شعور بلند ہوا ہے اس ساری صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حکومتی شخصیات اور سیاسی رہنمائوں نے بھی اپنے ’’رویوں‘‘ پر نظرثانی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ہرچند ’’سٹیٹس کو‘‘ میں رہ کر ’’نہال‘‘ ہونے والی پارٹیاںآناً فاناً اس لئے ایک ہو گئی ہیں کہ ان سب نے ایک دوسرے کی لوٹ مار کو کسی نہ کسی طرح ڈھانپ رکھا ہے اور اسی ’’خوف‘‘ نے انہیں یکجا کر دیا ہے اور جس دن لوٹ مار کرنے والے ان سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو ڈھانپنے والے ’’دست دراز تر‘‘ کو پیچھے ہٹانے کی سعی کی تو یہ سب عوام کے سامنے ننگے ہو جائیں گے اور عوام کے سامنے ’’ننگے‘‘ ہونے والوں کو جس قسم کے عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اس کے تصور ہی نے محض تماش بینوں کو نہیں‘ بلکہ سنجیدہ فکر افراد کو بھی ’’اندیشہ ہائے دور دراز‘‘ میں ڈال رکھا ہے۔ ٹیل پیس: ایک ای میل کے ذریعے مجید نظامی مرحوم کی یاد میں ہونے والی ایک تقریب کی تفصیل موصول ہوئی ہے۔ ایک وفاقی ادرے کے افسران کی علمی‘ ادبی تنظیم ’’دوام‘‘ کے تحت منعقدہ تقریب میں انور زیدی‘ شبیر ایثار‘ گلزار حسین‘ محمد امین ایمی اور یوسف مثالی نے مجید نظامی مرحوم کی صحافتی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔

ای پیپر دی نیشن