اِن دنوں مشرقِ وسطی کے مختلف ممالک میں متعدد شدت پسند گروہ سرگرمِ تخریب ہیں۔ اِن میں سے ہر گروہ دوسرے گروہوں کو امریکی سی آئی اے کا ایجنٹ بتانے لگا ہے اور تو اور عراق کی موجودہ حکومت کے کارپردازان نے بھی دولتِ اسلامیہ فی الشام والعراق(داعش) پر بھی سی آئی اے سے روابط کا الزام عائد کر دیا ہے- اِدھر امریکہ نے بھی النصرة اور خراساں کی سی تنظیموں کو داعش سے زیادہ خطرناک قرار دیا ہے- ہر دو تنظیموں کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ یہ اسامہ بن لادن کے جانشیں ایمن الظواہری کی قیادت میں شام اور اُس کے ہمسایہ ممالک میں زور پکڑنے لگی ہے- ہرچنداسامہ بن لادن آج اِس دُنیا میں موجود نہیں ہیں تاہم اُن کا فکری اور عملی مسلک آج کی عرب دُنیا میں بھی سکہءرائج الوقت ہے-امریکہ اور مشرقِ وسطی کے مختلف ممالک نے اسامہ بن لادن کی فکری اور مالی سرپرستی میں افغانستان کو سوویت رُوس کے فوجی غلبے سے آزاد کرانے کی جنگ شروع کی تھی- اِس جنگ کے دوران اِن ممالک نے بھی اسامہ بن لادن اوراُن کے پیروکار طالبان کو بڑے فخر سے سرآنکھوں پر بٹھایا تھا- افغانستان کی رُوس سے پسپائی کے بعد امریکہ اور عرب ممالک نے طالبان دشمن حکمتِ عملی اپنا لی تھی مگر اُسامہ بن لادن کی قیادت میں طالبان نے اِس حکمتِ عملی کو رد کر دیا تھا- آج اسامہ کے دستِ راست ایمن الظواہری کی قیادت میں طالبان اسی حکمتِ عملی پر قائم ہیں-یہ ضرور ہے کہ اسامہ بن لادن کے بعد اِن کے اندر مختلف اور متحارب گروہ وجود میں آ گئے ہیں- یہ اِس حرب و ضرب کا شاخسانہ ہے کہ آج کی دُنیائے اسلام اپنے آپ سے جنگ و جدل میں مصروف ہے- جنگ و جدل کی اِس حکمتِ عملی کو اپنے حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی اور غیروں کی دُور اندیشی قرار دیا جا سکتا ہے- بعض دانشور اِسے صلیبی اور صہیونی اتحادِ فکر وعمل کا نام بھی دیتے ہیں اور دُنیائے اسلام کے مادی وسائل اور روحانی میراث کی تباہی و بربادی اِس کا بنیادی مقصد بتاتے ہیں-
آج سے پون صدی پیشترعلامہ اقبال نے یہ نوید دی تھی کہ : سلطانی¿ جمہور کا آتا ہے ہے زمانہ/ جو نقشِ کہن تُم کو نظر آئے مٹا دو۔ یہ پیش گوئی آج تک سچ ثابت نہ ہو سکی۔ وجہ یہ کہ ہم مسلمان پرانے نقوش کو مٹانے کا فریضہ ادا کرنے میں غفلت کے مرتکب ہوئے۔ نتیجہ یہ کہ دُنیائے اسلام میںخاندانی بادشاہت اور اُس کی دستگیر ملائیت کے فرسودہ اور ازکاررفتہ ادارے آج تک اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں۔جوں جوںعوامی جمہوری تحریکیں زور پکڑتی جارہی ہیں خاندانی بادشاہت اور فوجی آمریت و استبداد اپنے شاہانہ طرزِ فکر و احساس کی بقا کی خاطر ملائیت کے بطن سے پھوٹنے والے دہشت گرد اور تشددپسند گروہوں کی نظریاتی اور مالی سرپرستی میں بے انتہا فیاضی سے کام لے رہی ہیں۔حال ہی میں Robert Baer نے Sleeping with the Devil کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جس کے چند اجزاءانٹرنیٹ پر سامنے آئے ہیں۔اس امریکی مصنف نے اکیس سال تک مشرقِ وسطیٰ میں سی آئی اے ڈائریکٹریٹ آف آپریشن میں سرکاری فرائض سرانجام دیے ہیں ۔ اس نے دیگر بیش قیمت معلومات کے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے بھی نقاب اُٹھایا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ دس برس کے دوران مشرق وسطی کے بااثر ترین ملک نے القاعدہ کو پانچ سو بلین ڈالر عطا کیے ہیں۔ 1997ءمیںاِس خاندانی بادشاہت کے ایک بااثر فرد نے طالبان کو ایک سو ملین ڈالر امداد بہم پہنچائی ہے۔ اِس مصنف کا خیال ہے کہ یہ عرب ملک بیرونی ممالک میں اِن دہشت پسند تنظیموں کی مالی اور نظریاتی سرپرستی پر اس لیے مجبور ہے کہ وہ اپنی بادشاہت کو اِن کی دستبرد سے بچانا چاہتا ہے اور عوامی بیداری کی جمہوری تحریکوں کی راہوں کو دہشت گردی سے مسدود کر کے رکھ دینا چاہتا ہے۔گویا سارا جھگڑا نظامِ حکومت کا ہے۔ اصل تصادم خاندانی بادشاہت اور اسلامی جمہوریت کے مابین ہے۔اصل کشمکش اخوان المسلمون کی اسلامی جمہوریت اور جنرل اسیسی کی فوجی آمریت کے درمیان ہے- Robert Baer کی اسی کتاب میںڈیفینس پالیسی بورڈ کی 2002ءکی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں اِس عرب شہنشاہیت کو عالمی دہشت گردی کاذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔مصنف نے اِس رپورٹ کے درج ذیل دو فقروں کا بطور ِ خاص حوالہ دیا ہے:
"The Arabs are active at every level of the terror chain, from planners to financiers, from cadre to foot-soldier, from ideologist to cheerleader."
واشنگٹن میں مقیم ایک سابق سیاسی تجزیہ نگار فہد نذر نے اپنے ایک حالیہ تجزیاتی مضمون میں آج کے شام میں برپاخانہ جنگی میں ہمسایہ ملک کی مداخلت کو سن انیس سو باسٹھ میں بھڑک اُٹھنے والی یمنی جنگ کے مماثل قرار دیا ہے۔آج سے نصف صدی پیشتر جب فوج نے صدیوں پرانی بادشاہت کا تختہ اُلٹ کر یمن کوجمہوریہ قرار دے دیا تھا تب امریکہ ، برطانیہ اور ہمسایہ ملک نے شاہ پسندوں کی حمایت میں کُھل کر فوجی اور اخلاقی امداد فراہم کی تھی۔اِس کے مقابلے میں سوویت یونین اور مصر بادشاہت کا تختہ اُلٹنے والوں کی عملی اور فوجی امداد پر کمربستہ رہے تھے۔بالآخر شاہ پسندوں کو شکست کا مُنہ دیکھنا پڑا تھااور جمہوریہ¿ یمن کو کامیابی نصیب ہوئی تھی۔جناب فہد نذر کے خیال میں آج سے نصف صدی پہلے اِس ہمسایہ ملک نے یمن کی صورتِ حال کو جس طرح اپنے لیے خطرہ تصور کیا تھا بالکل اُسی طرح آج بھی وہ شام کی حکومت کو ایران ، عراق اور لبنان کے سے شیعہ اکثریتی ممالک کی حمایت کے پیشِ نظر اپنے لیے ایک سنگین خطرہ سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہ حکومت القاعدہ کی سی دہشت گرد تنظیموں کی دامے ، درمے، سخنے بھرپور حمایت کر رہی ہے۔
یہ حقیقت تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی سترہ منٹ کی حالیہ ویڈیو ریکارڈنگ (بحوالہ روزنامہ ڈان بابت یکم دسمبر2013ئ) سے اظہرمن الشمس ہے کہ دہشت گردوں اور مسلمان ممالک کی حکومتوں کے درمیان اصل جھگڑا نظامِ حکومت کا ہے۔ دہشت گرد اسلام کے نام پر خاندانی بادشاہت کے بھی مخالف ہیں اور جمہوریت کے بھی۔اپنے مخالف خاندانی بادشاہت کے علمبرداروں کی مانند قتل و غارت اِن کے آئین جہانداری کا بھی جزوِ لاینفک ہے-طالبان کا یہ طرزِ فکر و عمل خاندانی بادشاہت ہی سے مستعار ہے- کیا عجب خاندانی بادشاہت کے نظام کے چل چلاﺅ کے بعد اِن کا اسلامی خلافت کا تصور بھی سلطانیءجمہور کا چلن اپنا لے!تشدد پسندی اور دہشت گردی ملوکیت ہی کا شاخسانہ ہے- اقبال نے کیا خوب کہا تھا :
کرتی ہے ملوکیت آثارِ جنوں پیدا
اللہ کے نشتر ہیں چنگیز ہو یا تیمور
کل جن سلاطین و ملوک نے اپنے عالمی سرپرستوں کی رہنمائی میں یہ” آثارِ جنوں“ پیدا کیے تھے آج وہی حکمران اپنی سرپرستی میں جنم لینے والے اِس جنوں کے اثرات سے خوفزدہ ہیں- القاعدہ کے قیام کا اوّلیں مقصد افغانستان میں اشتراکی روس کے غلبہ اور مزید پیش قدمی کو ختم کرنا تھا۔ فقط اسی مقصد کے حصول کی تمنا میں امریکہ اور اس کے تابع فرمان مسلمان ممالک نے القاعدہ کی بھرپور اخلاقی اور مادی سرپرستی کی تھی۔اس مقصد کے حصول کے بعد جب القاعدہ نے اپنے آئیڈیل اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد جاری رکھی تو امریکی اور اس کے اتحادی مسلمان ممالک القاعدہ کے خلاف سرگرمِ عمل ہو گئے۔ مرکزی قیادت سے محروم ہونے کے بعد القاعدہ کئی چھوٹے بڑے گروہوں میں بٹ کر رہ گئی۔ ان گروہوں کی باہمی آویزش نے دنیائے اسلام میں انتہائی تشویش ناک صورتِ حال پیدا کر رکھی ہے۔ جاننا چاہیے کہ اس صورتِ حال کا ایک نظریاتی رُخ بھی ہے۔