آج 1436 ھ کی بقر عید کا دن ہے۔ عید الفطر کے فوراًبعد سے ہی اسکی تیاری شروع تھی پہلے پہل کہیں کہیں لوگ بکرے دنبے کی سیوا کرتے نظر آئے پھر جوں جوں یہ عید قریب آتی گئی رونق میں اضافہ ہوتا گیا۔ پچھلے دو تین ہفتوں سے تو چمکتے اچھلتے بیل اور کسی گہری سوچ میں گم اونٹ بھی اس تقریب میں شرکت کیلئے خاصی تعداد میں نمودار ہونے لگے ۔ان جانوروں کو دیکھنے کیلئے ان کے قریب جانا بھی ضروری نہ تھا ۔ اپنے ٹی وی چینلز نے ہر شہر کے۔ ’’ریمپ‘‘ ہمارے سامنے سجا دئیے تھے اور… ’’بریکنگ ریٹس‘‘ اتنے زیادہ بتائے گئے کہ آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دفعہ ادھر غور ضرور کرے ۔ غرض ہر طرف ایک جشن کی آمد آمد کا سماں رہا۔کہیں چو پائے نوجوان ماڈلز کی تصاویر اور اشتہارات تھے تو کہیں ملبوسات پر ’’فُل دھوکہ ڈسکائونٹ ‘‘ کی نوید۔ کہیں ان کھالوں کی جو ابھی جانوروں کے تن پر تھیں اتار لے جانے کی ملفوف آفرز تھیں تو کہیں ڈاکٹروں کی عوام کو گوشت چبا چبا کر کھانے جیسی ہدایات ، جیسے لوگ پہلی بار اس آزمائش میں پڑنے والے ہوں۔ہر طرف بچے ، نوجوان اپنی اپنی خوشیوں کی تلاش میں سرگرداں نظر آئے ۔ یوں لگا جیسے انہیں عید قربان کے پہلے لفظ ’’عید ‘‘ کی سمجھ تو بہت زیادہ آگئی مگردوسرے لفظ ـ ’’قربانی ‘‘ کا مفہوم سنت ابراھیمی تک ہی محدودرہا ہو۔
میں نے جب اپنی سوچ کا دریچہ کھولا تو قربانی کی وادی کے پُر بہار حُسن اور نور کی تاب نہ لا سکا ۔ قربانی کا مقصد اپنی بہت ہی قیمتی اور پیاری چیز کو ، اپنی مرضی سے کسی اور کی خوشی کی خاطر بلامعاوضہ دے دیناہے۔ جس کا دائرہ ذاتی معمولی اشیاء اور مال سے لیکر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی تک پر محیط ہوتا ہے۔ چشم تصور نے اس وادی میں صدقِ خلیلؑ، صبرِ حسین ؑ اور معرکہ بدر وحنین کے گلشن دیکھے جن کی آبیاری عشق کی نہریں کر رہی تھیں ۔ان باغات کے سارے پودے اور پھول ہشاش بشاش اور نہایت پر سکون تھے۔ یہ وہ شہداء تھے جنہوں نے1947 میںاپنا گھر قلعہ اسلامی پاکستان کی خاطر چھوڑا مگر منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی شہید کر دیئے گئے ۔وہ لوگ بھی جنہوں نے کشمیر کی جنگ آزادی میں حصہ لیا اور قربان ہوگئے ۔وہ مائیں جنہوں نے اپنے بچوں کا خون دیکھ کر بھی اللہ کی خو شنو دی پر فخر کر تے ہو ئے دو سرے بچے پیش کر دئیے ۔ پھر وہ میرے جانے پہچا نے چہرے جنہوں نے ستمبر 1965ئ، یعنی انہی دنوں میں ، غزوہ بدر کی یا د تا زہ کر دی تھی ۔ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے جہا ز پرندوں کی طرح گرا ئے ۔ ان کے ٹینکوں کو سینوں سے ٹکرا نے کی دعوت دی اور ان کے فو جی دستوں کو چوا ئس دی کہ وہ ما رے جا ئیں ، قیدی بنیںیا بھا گ جا ئیں ۔ جس عددی طا قت سے دشمن نے لا ہور اور سیا لکوٹ سیکٹر میں حملہ کیا تھا اسے تو رو کنا ہی فتح تھا ۔اس پر مستزاد یہ کہ انہیں بھگا کر ، اُن کو مار کر، ان کے علاقے پرقبضہ کر نا ’’اذاجا ء نصر اللہ ِوالفتح‘‘ کے مصداق تھا ۔ اس رزم حق و با طل کے مجا ہد جنہوں نے جا م شہا دت نو ش کیا آج اُن کی تیسری نسل اور پو ری قوم ان کی قربا نی پر نازاں ہے۔
مجھے وہ چہرے بھی نظر آئے جوما ر چ 1971ء میں بچوں سمیت بنگال میں شہید کر دئیے گئے اور اُن کے ساتھ وہ شہید بھی جو اُس سال کی سول وار اور بھارت کی جا ر حیت کے مقابل لڑتے لڑتے وطن پر قربان ہو گئے تھے۔ وہاں تو وطن کی محبت کی پا دا ش میں قربا نیاں ابھی تک جا ر ی ہیں ۔ بوڑھوں کی پھانسیاںاور ان کی اولا دوں پر جبرو استبداد۔ کیا اس میں کو ئی شک ہے کہ وہاں پر لڑنے وا لوں کے پا س نہ وسائل تھے اور نہ جنگی حالات کی موافقت۔ پھر بھی لڑتے لڑتے وطن عزیزپرقربان ہو گئے۔ دشمن اسے ہما ری شکست کہتے ہیں جو کہ جنگی اصولوں کے مطا بق درست نہیں ۔نقصان اپنی جگہ، مگرقوم کو شکست اس وقت ہو تی ہے جب اسکی Will to fight کو تو ڑا جا ئے ۔ نہ تو بھا رت ہما ری Will to fight تو ڑ سکا نہ دو قومی نظریے کو ۔ بنگلہ دیش اسی نظریے پر قا ئم ایک نیا پا کستان بن کر سامنے آگیا ۔ سو وطن پر قربان ہو نے والے بلند مر تبت ٹھہرے۔
پھولوں میں کرنل شیر خاں ، لا لک جان اور گیا ری کے بہت سارے چہرے نظر آئے جو قربا نی کی مثال قائم کر کے آج ان با غا ت کا حسن بنے ہو ئے ہیں ۔ ان کے پیچھے 13سال کی وسعت والاایک اور گلشن ہے جن میں پشا ور سکول کے بچے اور ہزاروں بے گناہ پا کستا نی خوں رنگ پھولوں کی طرح مسکرا رہے ہیں اور ان بے گناہ ہم وطنوں کے تحفظ کی خا طر قربان ہو نے والے نوجوان اپنے فرض کی ادا ئیگی میں جان دے کر مسرور نظر آتے ہیں ۔
اس وا دی کے دا خلی را ستے پر آج 20کرو ڑ لوگوں کا ہجوم ہے ۔ہر کو ئی کچھ نہ کچھ اُٹھا ئے ہو ئے نذرانہ پیش کر رہاہے ۔کسی کے پا س قربانی کا مال ہے کسی کے پا س شب و رو ز کی محنت کا پسینہ ، کو ئی اپنے بچوں کو وطن عزیز کے لئے تیا ر کرتانظر آرہا ہے۔ تو کو ئی سر حدوں اور گلیوں کو محفو ظ کر تا ۔ سپہ سا لا ر ہر وقت چو کس نظر آتا ہے تو سپاہ اور اس کے ساتھ پوری قوم امن دشمنوں کے خلا ف بر سر پیکا رہے۔
یارب العزت ! قربا نیاں قبول کرتے ہو ئے کامرا نیاں عطا ء فرما ۔ دیکھ لے! کسی چہرے پر موت کا خو ف نہیں اور سُن لے! کہ جسطر ح کی آواز حرم کعبہ سے سنا ئی دیتی ہے ۔ بالکل وہی آواز پاکستان سے بھی اُٹھ رہی ہے ۔ لبیک اللھمّ لبیک ، لاشریک لک لبیک۔