لندن (سپورٹس ڈیسک ) پاکستان کرکٹ سے سپرسٹار ہیروز ناپید ہونے کا خدشہ ہے۔وسیم اکرم اس وقت سے بالکل اپنے ہیرو عمران خان جیسا بننا چاہتے تھے جب وہ صرف چوتھی کلاس میں تھے۔انہوں نے عالمی کرکٹ کا پہلی مرتبہ ذائقہ اس وقت چکھا جب وہ اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں سے آٹو گراف لینے کیلئے لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں ایک روزہ میچ دیکھنے گئے۔ عمران، جاوید میانداد اور ظہیر عباس سب وہاں موجود تھے۔انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ یہ تمام میرے کرکٹ ہیروز تھے، ویو ن رچرڈز اس وقت بھی ایک بڑا نام تھے۔وسیم اکرم نے ان تمام کھلاڑیوں کو اپنے سامنے کھیلتے دیکھا جس نے ان کے اندر ایک ایسا جذبہ پیدا کیا کہ وہ ایک ایسے بائیں ہاتھ کے باؤلر بن کر جو دنیا نے آج تک نہ دیکھا۔یہ سیدھا سا اصول تھا کہ ایک ننھے شائق نے اپنے سپرسٹارز کو سامنے کھیلتے دیکھا جس سے ایک اور سپرسٹار پیدا ہوا۔لیکن سابق آسٹریلین کپتان آئن چیپل نے پاکستان میں عالمی کرکٹ نہ ہونے کا دورانیہ طویل تر ہونے کے سبب خدشہ ظاہر کیا کہ اگر بچوں کیلئے کوئی آئیڈیل نہ ہو گا تو مستقبل میں پاکستان کو وسیم اکرم اور میانداد جیسے سٹارز پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ملک کے بچوں اور نوجوانوں کو گراؤنڈ جا کر انٹرنیشنل کرکٹ دیکھنے کا موقع نہ ملے تو پھر اچھے کرکٹرز پیدا کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ٹی وی پر بیٹھ کر میچ دیکھنا ٹھیک ہے لیکن آپ کو اپنے کھیل کا معیار اس حد تک بلند کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو سٹیڈیم تک آنے پر مجبور کردے۔ایک باپ اپنے بچے کو گراؤنڈ تک لے کر آتا ہے اور بچے کو اپنا ہیرو اور آئیڈیل مل جاتا ہے۔پاکستان نے رواں سال زمبابوے کی میزبانی کی تھی جو 2009 کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی دنیا کی پہلی ٹیسٹ ٹیم تھی لیکن ابھی بھی کوئی بڑی ٹیم میں پاکستان میں کھیلنے کو تیار نہیں اور قومی ٹیم 2009 سے متحدہ عرب امارات میں ہی اپنی تمام ہوم سیریز کھیلنے پر مجبور ہے۔ پاکستان کے مشکل حالات ہی عالمی کرکٹ کیلئے لمحہ فکریہ اور پریشانی کا سبب ہیں۔ میرے خیال میں بڑی ٹیموں کو پاکستان لانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا، مستقبل قریب میں کوئی بھی بڑی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی۔