بی بی کا قتل اور مشرف کے سوالات

مکرمی! بینظیر واقعی ایک بینظیر لیڈر تھیں۔ افسوس مگر ان کا قتل ورثاء کی عدم دلچسپی یا پھر کسی کی رنگ برنگی چالاکیوں، ہوشیاریوں کی نذر ہو گیا۔ اب جبکہ عدالت نے اپنے سامنے آئے ثبوتوں کی بناء پر کچھ ملزمان کو سزا دی اور کچھ کو بری کر دیا۔ تو پیپلز پارٹی کا موجودہ گروپ جو اپنے دور اقتدار سے لیکر اب تک اس معاملہ میں گہری نیند سویا ہوا تھا۔ یکدم ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا اور مشرف کو موردِ الزام ٹھہراتا ہوا فیصلے کے خلاف اپیل میں چلا گیا۔ ردِعمل کے طور پر مشرف نے بھی اس قتل کے سلسلہ میں زرداری، رحمان ملک اور خالد شہنشاہ پر چند سوالات اٹھا دیئے ہیں اور یہ سارے وہ سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کے دل و دماغ میں اس قتل کے پہلے روز ہی سے اٹھ رہے ہیں۔ مگر ان سوالات کا جواب کسی کو بھی کہیں سے بھی نہیں مل رہا۔ مشرف اگر مجرم تھا تو زرداری کے سنہری دور میں اسے اعزاز کے ساتھ بیرون ملک کیوں بھجوایا گیا۔ قانون کی کتابوں میں ایک مشہور فقرہ ہے کہ حالات و واقعات بولتے ہیں۔ اس قتل کے حالات و واقعات نہ صرف بول رہے تھے بلکہ چیخ و پکار بھی کر رہے تھے کہ ہر پاکستانی کے دل و دماغ میں ایک ہی طرح کے جو سوالات ہیں۔ انہیں سامنے رکھ کر تفتیش کی جائے۔ مگر ان سوالات کا محور جو جو بھی تھا وہ اور اس کا ہر کارندہ اتنے اونچے سنگھاسوں پہ تھے کہ کسی تفتیش کار کی رسائی وہاں تک ممکن نہ تھی۔ بینظیر کی قبر سے سیاسی فوائد حاصل کرنے والوں کو اس قبر سے آج بھی آواز آتی تو ہو گی کہ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں۔ بس یہ دستانے اتارنا ہی تو مشکل کام ہے۔ ورنہ قاتل تو انتہائی غریب غربا مقتولوں کے بھی مل ہی جاتے ہیں تو اس قتل کے بینظیر قاتل آخر کیوں نہیں پھر مل رہے۔(محسن امین تارڑ ایڈووکیٹ)

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...