اسلام آباد (جاوید صدیق) سابق وزیراعظم نواز شریف نے وطن واپس آ کر احتساب عدالت کا سامان کرنے کا فیصلہ کر کے اپنے سیاسی حریفوں کی تمام قیاس آرائیوں اور نظریوں کو باطل ثابت کر دیا ہے۔ سابق وزیراعظم کے بارے میں ان کے مخالفین یہ تاثر دے رہے تھے کہ وہ اب واپس پاکستان نہیں آئیں گے وہ اپنی اہلیہ کی علالت کے بہانے لندن میں ہی قیام کریں گے۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ نواز شریف احتساب عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے لیکن نواز شریف نے اپنی صاحبزادی کی رائے کو بھی نظرانداز کر کے واپس وطن آنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ احتساب عدالت میں پیش بھی ہوں گے۔ لندن میں قیام کے دوران ان کے قانونی مشیر بھی لندن میں ان سے احتساب عدالتوں میں پیشی اور امکانی اثرات پر تبادلہ خیال کرتے رہے ہیں۔ ان کی وطن واپسی میں نواز شریف کے قانونی مشیروں کی رائے بھی شامل ہے۔ سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہفتہ کے روز ان کی لندن میں میڈیا سے گفتگو میں ان کا یہ جملہ کہ حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں اہمیت کا حامل ہے۔ نواز شریف احتساب عدالتوں کا سامنا کرکے یہ تاثر دیں گے کہ وہ ملکی عدالتی نظام اور قانون کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ سیاسی اعتبار سے کوشش کریں گے کہ عوام کے ساتھ رابطے میں رہیں اور اپنا یہ بیانیہ عوام تک پہنچاتے رہیں گے کہ انہیں بدعنوانی پر نااہل نہیں کیا گیا بلکہ انہیں اقتدار سے الگ کرنے کی وجوہات دوسری ہیں۔ نواز شریف کے وطن واپس آنے سے ان کے عدلیہ اور فوج سے تعلقات سے متعلق تناؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان کی واپسی سے پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھے گا۔ وفاق اور صوبے میں ان کی حکومتوں کے لئے آزمائش بھی بڑھے گی۔
نواز شریف/ فیصلہ