شہید جمہوریت کی زندگی کا مشن

خوشامد اور خوبیوں کا اعتراف کے مفہوم اور سیاق و سباق کے حوالہ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں کسی شخص میں وہ خوبیاں موجود ہی نہ ہوں مگر مطلب وخوشنودی کی خاطر رطب اللسان ہوا جائے تو اسے خوشامد کہیں گے لیکن ایک شخص محفل میں موجود ہی نہ ہو پھربھی اس کی خدمات‘ کارناموں اور خوبیوں کا ذکر کیا جائے تو اسے خوبیوں کا اعتراف کہیں گے ثانی الذکر کو ہی حقائق پرمبنی حقیقت تصور کر سکتے ہیں۔
آج شہید جمہوریت چودھری ظہورالٰہی کو راہی عدم ہوئے 37 برس گزر گئے ہیں مگر ان کی چاہتوں‘ عنایتوں اور خدمات و کارناموں کی داستانیں ہزاروں کی زبان پر ہیں اور ان کی خوبیوں کا اعتراف صنعتکاروں سے لیکر زمینداروں‘ سیاستدانوں سے لیکر سماجی رہنمائوں‘ غربا و مساکین سے لیکر طبقہ امراء غرض ہر مکتبہ فکر میں ہو رہا ہے۔ یہی سچائی‘ حقیقت پسندی اور خوبیوں کا اعتراف ہے وگرنہ موجودہ دور میں ایسے القابات حاضر لوگوں کیلئے ہی مختص ہو کر رہ گئے ہیں جسے دیانتدارانہ طرز عمل کہنا غلط بلکہ کم از کم الفاظ میں بھی مصلحت پسندی کے سوا کوئی معنی نہیں دئیے جا سکتے۔ وہ اپنے دور کے سیاستدانوں میں ہر لحاظ سے ممتاز اور منفرد نظر آتے ہیں وہ لفظ سیاستدان سے وابستہ منفی داستانوں سے دور کا بھی واسطہ نہ رکھتے تھے مگر لفظ سیاستدان کی نیک نامی کا باعث ہیں۔
تقسیم ہند کے دوران خوانِ مسلم سے جس طرح ہولی کھیلی گئی اور ہزاروں مرد و زن کو تہ تیغ کیا گیا اس دور میں بھی چودھری ظہورالٰہی شہید‘ چودھری منظور الٰہی مرحوم مغوی خواتین کی بازیابی کیلئے نہ صرف کوشاں رہے بلکہ مہاجرین کے قافلوں کو بحفاظت وطن پہنچاتے رہے اور امرتسر میں اپنے کارخانے مہاجرین کے ٹھہرنے کیلئے وقف کر دئیے جب عبد اللہ خالد ملک بطور کمشنر مہاجرین تعینات ہوئے جن کا تعلق بھی گجرات کے موضع گورالی سے تھا تو وہ اکثر کہتے کہ ہم نے اپنے مشن کی کامیابی یعنی مہاجرین کی آباد کاری کیلئے دن رات کام کیا جس میں چودھری ظہور الٰہی اور چودھری منظور الٰہی نے معاونت کی انتہا کر دی جس کی وجہ سے ہماری کامیابیوں میں اضافہ ہوا وہ واقعی درد مند دل کے مالک ہیں۔ لیکن دونوں بھائیوں نے اپنی خدمات کے حوالہ سے نہ کبھی تقریب کے انعقاد میں دلچسپی لی اور نہ ہی کسی اعزاز و انعام کی خواہش ظاہر کی بلکہ چودھری ظہورالٰہی صرف ایک بات کہتے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کیا پھر نمود و نمائش کیسی؟
اس امر میں شائبہ نہیں کہ چودھری ظہور الٰہی شہید کے والد چودھری سردار خاں نے برطانوی دورِ حکومت میں غریب کسانوں کی حالت زار کی بہتری کیلئے بہت کام کیا جب سرچھوٹو رام گجرات آئے تو چودھری سردار خان نے ملاقات میں ایک مطالبہ پیش کیا کہ جب دوسرے لوگ مالیہ کی ادائیگی کی بنیاد پر دیگر مراعات سے استفادہ حاصل کر رہے تھے تو مسلمانوں کو کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟ حالانکہ چودھری سردار خان خود مالیہ کی ادائیگی کی بنیاد پر مرکزی اسمبلی کیلئے ووٹ کا حق حاصل کر چکے تھے میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس گھرانے نے ہمیشہ حق دلانے اور مصائب و آلام کی کمی کیلئے اپنی سی کوششیں کی ہیں۔
چودھری ظہور الٰہی سات مارچ 1920ء کو چودھری سردار خان کے گھر موضع نت میں پیدا ہوئے انہوں نے گجرات میں ہی ابتدائی تعلیم سے لیکر کالج تک کا علم حاصل کیا انہیں علم و ادب سے خاص شغف تھا وسیع مطالعہ رکھنے والے چودھری ظہور الٰہی جب سیاسی محافل میں آنے جانے لگے تو ان کے لہجے کی پختگی و اعتماد سے خاص حلقہ احباب متوجہ ہوا جو حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ انہیں سیاست میں آنے کے مشورے دینے لگے لیکن 1952ء میں جب دستی کھڈیوں کو جاپان سے مشینری درآمد کر کے بجلی کی کھڈیوں میں بدلنے میں کامیاب ہو گئے اور چودھری منظور الٰہی کے کاروبار سنبھالنے سے انہیں فرصت کیلئے زیادہ وقت مل گیا تو وہ زیادہ وقت سیاسی و سماجی کاموں کو دینے لگے 1957ء میں ڈسٹرکٹ بورڈ کے انتخابات وسیع ہوئے جن میں اکثریت نوابوں و جاگیرداروں کی منتخب ہوئی مگر چودھری ظہورالٰہی نے بھی ایک حلقے سے بلامقابلہ کامیابی حاصل کی ان کی ذہانت اور دیانتداری کی وجہ سے حکومت نے انہیں ڈسٹرکٹ بورڈ گجرات کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا انہوں نے اختیار ملتے ہی تعمیر و ترقی کے کام شروع کرا دئیے برسوں سے نوابوں نے جن دیہات کو پسماندگی کی تاریکیوں میں دکھیل رکھا تھا چودھری ظہور الٰہی نے بلا تفریق برادری یاعلاقہ ترقیاتی کام کرائے اور بھائی چارے کی ایسی فضا قائم کی کہ مقامی سیاست میں چودھری ظہور الٰہی کے بہی خواہوں کی اکثریت واضح نظر آنے لگی۔ ایوب خان مارشل لاء کے دوران سیاسی لوگوں کو سزائیں دینے کا سلسلہ شروع ہوا تو چودھری ظہور الٰہی جیسا دبنگ اور پراعتماد کیسے بچ سکتا تھا؟ مگر بار بار کے فوجی چھاپوں کے باوجود جب کچھ نہ ملا تو گھر کی دیوار کو تجاوز دیکر چھ ماہ کی سزا سنا دی گئی ہائیکورٹ کی طرف سے ضمانت پر رہا کرنے کے فیصلے منسوخ کرنے جیسے افسوسناک واقعات کا آغاز ہوا مگر چودھری صاحب نے دلیری سے سزا کا عرصہ گزارا وہ گھر والوں کو صبر اور حوصلے کی تلقین کرتے اور کہتے کہ لوگ ولائیت بھی تو جاتے ہیں سمجھ لو میں بھی ولایت آ گیا ہوں۔بعدازاں ایبڈو قانون کے تحت سیاستدانوں کو سزائیں ملنے لگیں تو چودھری ظہور الٰہی مغربی پاکستان کے واحد شخص تھے جنہوں نے اپنے کیسوں کی خود وکالت کی اور رہا ہوئے جو ان کی صلاحیتوں‘ اعتماد اور دیانتداری کا واضح ثبوت تھا۔
1962ء میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو کر اراکین قومی اسمبلی کے میاں عبد الباری گروپ کے کنوینر اور مسلم لیگ کنونشن کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ پر مغز اور فصاحت و بلاغت بھری تقاریر نے انہیں ملکی سطح کی شناخت دلا دی بلا شبہ جیل میں گزارے عرصہ نے ان کی شخصیت کو علمی خزانہ کے حوالہ سے مکمل کر دیا تھا۔ وہ نواب آف کالا باغ اور صدر ایوب خان کے انتہائی قریبی دوست رہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے کئی بار وزارتوں و دیگر عہدوں کو قبول کرنے سے معذرت کی موجودہ سیاست میں ایسا مرد قلندر ملنا انتہائی مشکل ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی چودھری ظہور الٰہی کے گروپ میں بطور رکن شامل رہے۔
چودھری ظہور الٰہی کی سیاسی کامیابیوں میں وسیع دسترخوان کا بڑا عمل دخل ہے ایک طرف ان کے گھر کے دروازے سائلین کیلئے کھلے رہتے اور انواع و اقسام کے کھانے ہر خاص و عام کو پیش کیے جاتے تو دوسری طرف بڑے بڑے نامی و گرامی سیاستدان اپوزیشن عمائدین کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر ان کی رہائش گاہیں استعمال ہوتیں۔ غربا و مساکین کیلئے خصوصی وظائف کا اجرا کر کے چودھری ظہور الٰہی شہید نے ضرورت مندوں کو مستقل بنیادوں پر بحال کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا جو آج بھی جاری ہے۔

ای پیپر دی نیشن