ایک بے حد مشکل موضوع جس میں ہماری قطعاً کوئی دلچسپی نہیں مگر پڑھنے والوں کی دلچسپی۔ اصرار کو مدنظر رکھتے ہوئے چند تحقیقی رپورٹس کے چُنیدہ نکات نذر قارئین ہیں۔ یہ سراسر شیطانی افعال ہیں ۔ عوام کی اکثریت قطع نظر ان پڑھ ہیں یا اعلیٰ تعلیم یافتہ ۔ اِس گرداب میں مبتلا ہے۔ "سینٹ" میں بل پیش ہوئے مہینہ بھر سے زائد ہو چلا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اِس کو منظور کر کے نافذ کروائے۔جادو کا ذکر قرآن پاک میں بھی ملتا ہے اور احادیث سے بھی ثابت ہے اصل سوال یہ ہے کہ کیا واقعی شہر میں اس پائے کے جادوگر، عامل یا سفلی گر موجود ہیں جو اپنے عملیات اور تنتر منتر کے زور پر نفرت کو محبت اور محبت کو نفرت میں بدل دیتے ہیں؟ کاروبار کو باندھ کر انسان کو کوڑی کوڑی کا محتاج بنا دیتا ہیں؟ طلاقیں دلواکر ہنستے بستے گھر کو اجاڑ دیتے ہیں؟ تالوں پر منتر پڑھ کر دماغ مقفل کر دیتے ہیں؟
ہر کالا علم ضروری نہیں کہ سفلی ہو، سفلی عمل کا مقصد انسانیت کو سوائے نقصان پہنچانے کے اور کچھ نہیں ہوتا. کالے علم کے بعض عمل ایسے بھی ہیں جس میں عامل کو پاک صاف رہنا ضروری ہوتا ہے. اور دوران عمل جھوٹ بولنے سے لے کر ہر برے فعل سے اجتناب برتنا لازم ہوتا ہے. دوسری جانب سفلی سراسر شیطانی عمل ہے اور اس عمل کے لئے غلیظ اور ناپاک رہنا اولین ہے سفلی اور کالے جادو کے حقیقی عاملوں اور شعبدے بازوں میں واضح فرق ہے شہر بھر میں اپنی دکانیں سزا کر بیٹھے عاملوں کئی فیصد تعداد ’’جعلی‘‘ ہے جو مختلف شعبدے دکھاکر سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں مثلاکیمیکل کے ذریعے بغیر تیلی کے آگ لگا دینا، سرنج کے ذریعے لیموں کا رس نکل کر پھر سرنج کی مدد سے ہی اس میں سرخ رنگ بھر کر لیموں میں خون ٹپکتا دکھانا وغیرہ. اس کے برعکس اصل عامل اور حقیقی سفلی گر اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے اس معاملے میں وہ سخت رازداری برتتے ہیں، اور ہمیشہ اپنے قابل اعتماد کارندوں کے ذریعے ہی بھروسے کی پارٹیوں سے سودا کرتے ہیں. وہ کبھی کسی اجنبی کے سامنے اعتراف نہیں کرتے کہ وہ سفلی گر ہیں یا کالے علوم کے ماہر، اکثریت ایسے ’’سفلی گروں‘‘ کی بھی ہے جو خود کو بظاہر ’’روحانی عامل‘‘ ظاہر کرتے ہیں لیکن اصل میں وہ ’’کالے جادو‘‘ اور سفلی کا کام کر رہے ہیں،گائے، بھینس، بکرے یا بکری کے دست یعنی شانے کی ثابت ہڈی، کالے جادو اور سفلی عمل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قصاب ہمیشہ اس پتلی اور چپٹی ہڈی کو گوشت سے الگ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں۔ بنگال کا ایک جادو ’’ڈھائیا‘‘ یہ جادو انتہائی سریع الاثر اور خطرناک تصور کیا جاتا ہے. اسے ڈھائیا اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ڈھائی پل یا سیکنڈ، ڈھائی منٹ، ڈھائی گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ ڈھائی دن میں اپنا اثر دکھاتا ہے، اس سے زیادہ وقت نہیں لیتا. اس عمل کا سب سے کارآمد ہتھیار ’’ہانڈی‘‘ ہے جو کسی کی جان لینے کے لئے چڑھائی جاتی ہے ہانڈی کے اندر عموما چاقو، چھری، قینچی، استرا، سوئیاں اور ایک دیا رکھا جاتا ہے اس بارے میں مشہور ہے کہ کالے علم کے زور پر جلایا گیا یہ دیا اس قدر طاقتور ہوتا ہے کہ اگر کوئی طوفان بھی ہو تو یہ جلتا رہے گا اور منزل مقصود پر پہنچے گا اس طرح ’’بھان متی‘‘ کا جادو بھی انتہائی ’’جان لیوا‘‘ ہے اور اس کا توڑ بہت مشکل سے کیا جاتا ہے یہ بھی سفلی عمل کی ایک قسم ہے۔ ’’ڈھائیاں‘‘ کی طرح بھان متی بھی سفلی عمل ہے اس کے عامل زیادہ تر بھنگی، چمار، یا نچلی ذات کے ’’بدکار‘‘ لوگ ہوتے ہیں بھان متی’’ پتلے‘‘ پہ منتروں کا جاپ کر کے دشمن کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا جاتا ہے اور عامل کوسوں دور بیٹھ کر پتلے کے ساتھ جو سلوک کرے گا اس کا دشمن پر بھرپور عمل ہوتا ہے۔ بھان متی کے جادوگروں کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ ہر سال ’’دیوالی‘‘ کی رات اپنا جادو جگاتے ہیں اگر اس سال انہیں موقع نہ ملے تو سارے سال کے لئے بیکار ہو جاتے ہیں۔ صدر شاہین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’قیام پاکستان سے بہت پہلے بھان متی ایک عرصے تک جنوبی ہند با لخصوص حیدرآباد کن میں رائج رہا جو عام طور پر مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ ایک زمانے میں تو حیدرآباد کن میں اس جادو کا اتنا زور تھا کہ اس کے خلاف ریاستی پولیس میں باقاعدہ اینٹی بھان متی اسٹاف مقرر کرنا پڑا اس کا حکم انگریز ڈائریکٹر جنرل پولیس مسٹر ڈبلیو اے گیر نے دیا تھا اور اینٹی بھان متی اسٹاف کے پہلے سربراہ چھمن راؤ تھے‘‘ کاروبار کی بندش کے لئے جادو ٹونہروحانی عاملوں اور سفلی گروں کے علاوہ شہر میں زیادہ تر جادو ٹونہ اور تعویز گنڈے ایک دوسرے کا کاروبار تباہ کرنے یا کسی کی دکان کا دھندہ چوپٹ کرنے کے لئے کرایا جاتا ہے اور اس کے خاتمہ کے لیے اللہ نے دعائیں بھی بتائیں ہیں۔ سورتہ النحل 16۔ اللہ کی قسم! اے نبی! تم سے پہلے بھی بہت سی قوموں میں ہم رسول بھیج چکے ہیں (اور پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ) شیطان نے ان کے بْرے کرتوت انہیں خوشنما بنا کر دکھائے (اور رسولوں کی بات انہوں نے مان کر نہ دی)۔ وہی شیطان آج ان لوگوں کا بھی سرپرست بنا ہوا ہے اور یہ درد ناک سزا کے مستحق بن رہے ہیں۔ جادو کے وجود کا منکر تو اس وقت شاید دنیا میں کوئی بھی مذہب نہیں۔یہود ونصاری ٰکا ایک بڑا طبقہ اس کے سیکھنے اور سکھانے میں انتہائی سر گرم ہے۔ یہود نے "ھاروت وماروت" سے سیکھ کر اْسی وقت سے اس کا غلط استعمال شروع کر دیا تھا، جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہ ہے ’’تو وہ سیکھتے تھے ان دونوں سے وہ چیز (جادو)جس کے ذریعے وہ پھو ٹ ڈال دیں شوہر اور بیوی کے درمیان۔‘‘ اور اِس وقت بھی یہود اپنے شر م ناک مقاصد کو پورا کرنے کے لیے جادو سے بھر پور مددلیتے ہیں اور یہ بات کسی پر بھی مخفی نہیں۔
لبید بن اصم نامی یہودی کی بیٹیوں نے "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم" پر جادو کیا اور جادو کو ایک دھاگہ کی صورت میں گیارہ گرھیں لگا کر اس کو ایک کنویں میں ڈال دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ دن اس کے اثرات بھی رہے، جس کی وجہ سے آپ کو بہت پریشانی کا سامنا ہوا۔با لآخرر حمت خدا وندی دست گیر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں وہ کنواں دکھا دیا گیا جس میں سحر کر کے گرھوں کو باندھا گیا تھا اور ساتھ ساتھ اس کا توڑ یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس بھی سکھا دی گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں کے پاس تشریف لے گئے اور اس دھاگے کو نکال کر قرآن کریم کی ایک آیت پڑھتے جاتے اور ایک گرہ کھولتے جاتے، یہاں تک کہ تمام آیتوں کے ختم ہوتے ہی سب گرھیں کھل گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سے سحر کا اثر بالکل ختم ہو گیا۔معلوم ہوا کہ انسان جادو کی وجہ سے بڑے بڑے خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے، اس لیے کسی بھی دن معوذات اور مسنون دعاؤں سے سستی اور کاہلی نہ برتی جائے، حتی کہ بعض اوقات انسان کو جادو کے ذریعے قتل تک کردیا جاتا ہے۔کالے جادو کرنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جو جیتے جاگتے انسان کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔یہ بات یقینی ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور وہ اسی وقت مقررہ پر ہی آئے گی لیکن جس طرح ظاہری طور پر انسان کا قتل ہو جانا سبب کا درجہ رکھتا ہے، اسی طرح جادوکے ذریعے سے بھی سبب کے درجہ میں قتل کیا جاسکتا ہے۔
"اللہ تعالیٰ رحمان" ہم سب پر رحم ۔کرم فرمائے۔ آمین