دوست نے خوبصورت پوسٹ بھیجا۔’’آج بابا جی سے ملاقات ہوئی تو خلاف توقع ان کے ہاتھ میں سمارٹ فون تھا اور وہ وٹس ایپ پہ مسیج لکھ رہے تھے۔ یہ صورتحال میرے لئے نہ صرف نئی تھی بلکہ حیران کن بھی۔ حیران ہوکر پوچھا کہ باباجی لگتا ہے تبدیلی واقعی آگئی ہے۔ اس فضول چیز سے ہم پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن چھڑا نہیں پا رہے اور ایک آپ ہیں کہ اس عمر میں نیا شوق پال لیا۔ بابا جی مسکرائے اور کہنے لگے۔’’یہ اتنی بھی بری چیز نہیں۔ میں کافی شاکی تھا اس کے بارے میں لیکن آج اس نے وہ نکتہ بڑی آسانی سے سمجھا دیا جو میں برسوں نہیں سمجھ پایا تھا۔‘‘
میری حیرت میں اضافہ ہوگیا۔ ایسا بھلا کونسا نکتہ ہوسکتا ہے جو باباجی کو سمارٹ فون سے سمجھ آیا۔ درخواست کی کہ تفصیلات بیان فرمائیں تاکہ ہم بھی مستفید ہوسکیں۔
باباجی بولے کہ میں دس بارہ دن سے دوستوں کے ساتھ وٹس ایپ پہ رابطے میں ہوں۔ جو دوست ایک دو دن کیلئے رابطہ نہیں کرتے ان کے نام اور پیغامات بہت نیچے چلے جاتے ہیں اتنے نیچے کہ میرا ہاتھ تھک جاتا ہے سکرول کرتے کرتے۔ اور جو رابطے میں رہتا ہے وہ لسٹ میں سب سے اوپر رہتا ہے۔
عرض کیا کہ ایسا ہی ہوتا ہے اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ یہ تو ہمیں سالوں پہلے پتا تھا۔
بابا جی کہنے لگے، تم نے میری بات پہ غور نہیں کیا۔
ہم سب کا ایک رب ہے۔ جب ہم اسکے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اسکو یاد کرتے ہیں اس سے مانگتے رہتے ہیں تو اس کے پاس موجود لسٹ میں ہمارا نام اوپر ہی اوپر رہتا ہے۔ لیکن جیسے ہی ہم اس سے غافل ہوجاتے ہیں لسٹ میں ہمارا نام بہت نیچے چلا جاتا ہے۔ بس میں یہی نکتہ سمجھا ہوں کہ اگر اس کی لسٹ میں نام اوپر رکھنا ہے تو "وقتا فوقتا" اسے کسی نہ کسی طرح یاد کرتے رہنا چاہئے۔۔۔ عزیز رشتے داروں اور قریبی دوست احباب سے میل ملاقات اور رابطہ قائم رکھنے کے لئے توفیق اور حیثیت اجازت دے تو سفر بھی کرتے رہنا چاہئے۔خلق خدا اور دنیا کی خوبصورتی دیکھنے کے لئے گھومتے پھرتے رہنا چاہئے۔ اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ میرے بندے میری دنیا میں گھوما پھرا کرو اور دنیا میں بکھری میری ان گنت نشانیوں نعمتوں اور مخلوق کے مشاہدہ سے تمہارا دل دماغ کھل سکے اور تم میرے شکر گزار بندے بن سکو۔ دنیا دیکھنے سے بندہ خالق کی تخلیق پر حیران ہوتاہے۔ سفر وسیلہ ظفر ہے۔ شعور و معرفت کے دریچے کھلنے لگتے ہیں۔ اس بار ہمارا سفر اٹلی کی جانب تھا۔ میلان اٹلی کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اہم تجارتی مرکز، فیشن کی دنیا کے ڈھیروں رنگ لئے، یورپ کی چھبیس صدیوں کی تاریخ کا آئینہ دار ہے۔ ستمبر کا خوشگوار مہینہ یورپی ممالک میں سیر کے لئے مناسب سمجھا جاتا ہے۔ نیویارک سے میلان تک آٹھ گھنٹے سمندر کے اوپر امریکن ایئرلائن پر سفر بھی خوشگوار رہا۔میلان ائیر پورٹ سے ٹرین پر ہوٹل پہنچے۔میلان کی عمارتیں اس شہر کے قدیم ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔ہوٹل سے شہر تک کا راستہ لوکل ٹرین یعنی میٹرو پر طے کیا۔میلان کے مرکزی کیتھڈرل معروف قدیم ترین چرچ کے علاقے میں پہنچے۔اس کیتھڈرل کے بازار میں معروف برانڈز کی دکانوں پر سیاحوں کی رونق لگی رہتی ہے۔میلان کیتھڈرل اٹلی کا سب سے بڑا چرچ جس کو مکمل ہونے میں چھ صدیوں کا عرصہ لگا۔اس چرچ میں 34000 سے زائد مجسمے ہیں، سرکاری طور پر اس کی تعمیر 1386 کے آغاز میں ہوئی۔یہ عمارت دور سے دل کو اپنی جانب مائل کرتی ہے۔اس کے در و دیوار پر کیا گیا سنگ تراشی کا کام چھ صدیوں پر محیط سنگ تراشوں کے کمال فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس چرچ کو دنیا کا پانچواں بڑا چرچ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
چرچ کے بالکل ساتھ اس خوبصورت عمارت کا نام گیلریا ویٹوریا ہے، اس کو دنیا کے پرانے ترین شاپنگ مال میں سے ایک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اب اس عمارت میں برانڈڈ سٹوررز کی دکانیں ہیں اور ایک دو آرٹ گیلریز بھی۔ اس گیلری کو ایک تھری ڈی تصویر کہا جا سکتا ہے، شیشے کی بنی ہوئی چھت، اونچے اونچے محراب اور در ودیوار پر نقش و نگار اور تصاویر کا حسین متزاج ہے۔ اٹلی میں پیزا ،آئسکریم اور کافی مشہور ہیں۔اٹلی کی پرانی علامت پبلک ٹرانسپورٹ ٹرام کی سہولت سے سارا شہر با آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔شہر میں پندرہویں صدی کے قلعہ کے مینارے اور برجیاں تاریخ کا مظہر ہیں، قلعہ کے مرکزی دروزہ سے باہر ایک فوارے کے قریب بیٹھنا بہت اچھا لگا۔آیا کریم کھائی۔ چرچ کے سامنے کافی شاپ سے یہاں کی مشہور کڑوی ترین کافی پی۔قلعہ کے میوزیم میں بھی رونق تھی۔دوسرے روز بذریعہ ٹرین وینس روانہ ہوئے۔دو گھنٹے بعد ہم وینس تھے۔سمندرایڈریاٹک کی ملکہ، پانیوں کا شہر، پلوں کا شہر اور روشنیوں کے شہر کے نام سے جانا جانے والا دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک اطالیہ یعنی اٹلی کا شہر وِینس (وینے تسیا) ملک کے شمالی علاقہ میں واقع ہے۔اٹلی میں اس کو صوبہ کا درجہ دیا گیا ہے جس کے زیر انتظام 44 قصبات ہیں۔
اس شہرکی آبادکاری رومی سلطنت کے مختلف شہروں سے بے دخل کیے جانے والے لوگوں سے ہوئی، ان شہروں سے لوگوں کو بربریوں کے حملوں کی وجہ سے بے دخل ہونا پڑا۔
سولہویں صدی عیسوی میں وینس کا شمار یورپ کے مشہور ترین مراکز میں کیا جاتا تھا، وینس کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں سے موسیقی کے تحریری کام کا آغاز ہوا اور اس کی وجہ سے یورپ کے کئی علاقوں خاص طور پر فرانس اور فلانڈرز سے موسیقار وینس کھنچے چلے آئے۔
وینس اپنی نہروں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ شہر 118 جزیروں پر مشتمل ہے جنکو 150 نہریں جدا کرتی ہیں۔ جن جزیروں پر شہر آباد ہے انکو لگ بھگ 400 پلوں کے ذریعے ملایا گیا ہے۔ پرانے شہر میں نہریں ہی سڑکوں اور گلیوں کا کام سر انجام دیتی ہیں اور ہر قسم کی آمدورفت پانی پر یا پیدل ہوتی ہے۔ انیسویں صدی عیسوی میں شہر کو ریل گاڑی کے ذریعے باقی اٹلی سے ملایا گیا اور وینس ریلوے سٹیشن تعمیر کیا گیا، جس کے بعد بیسویں صدی میں بذریعہ سٹرک آمدورفت کا آغاز کیا گیا اور شہر تک سڑک اور پارکنگ بنائی گئی۔ وینس یورپ کا سب سے بڑا ‘‘کارفری‘‘ (بغیرکار گاڑیوں والا) شہری علاقہ اور کاروں ٹرکوں کے بغیرکام چلانے والا یورپ کا اپنی نوعیت کا واحد شہر ہے۔
آمدورفت کے لیے استعمال ہونے والی روائتی کشتی گوندولا کہلاتی ہے۔عمومی آمدورفت اب موٹر سے چلنے والی واٹر بسوں پر ہے۔اور یہ واٹر بسیں شہر کی نہروں پر ایسے ہی چلتی ہیں اور آمدورفت کی سہولت فراہم کرتی ہیں جیسے بڑے شہروں میں عام بسیں۔ ان کے علاوہ پیدل آمدورفت شہر کے مختلف علاقوں کو ملانے والی پلوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔۔وینس سے اگلی منزل شہر فلورنس تھا۔شام کے چند گھنٹے فلورنس کے مناظر دیکھنے میں گزار اور پھر نواحی شہر پریتو روانہ ہو گئے۔پریتو میں ڈاکٹر صاحب اشتیاق چیمہ کے گھر قیام کیا۔ یہاں کی مہمان نوازی کا ذکر بھی ہو گا پہلے پیسا مینار کا ذکر کر لیں۔پیسا شہر پریتو کے نزد میں واقع ہے۔مینار ایک چرچ کیتھیڈرل آف پیسا کی عمارت کا حصہ ہے جو اٹلی کے شہر پیسا میں واقع ہے۔ چرچ کی وجہ سے اسے مخصوص رومن طرز میں تعمیر کیا گیا تھا۔پیسا ٹاورکی وجہ شہرت اس کا ایک طرف جھکاؤ اور رومن طرز تعمیر کا شاہکار ہونا ہے۔
اِس مینار کی تعمیر8 اگست 1173ء کو شروع ہوئی۔ اس کی 8 منزلیں ہیں۔ اگرچہ اس مینار میں ابھی بھی وہ پرانی گھنٹیاں موجود ہیں جو اس کی تعمیر کے وقت لگائی گئیں تھیں لیکن ان کا اب استعمال نہیں کیا جاتا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کی تعمیر 200 برسوں میں مکمل ہوئی یعنی دو صدیاں بیت گئیں۔ تعمیر میں اس قدر تاخیر کی وجہ اس میں پائے جانے والے تعمیراتی مسائل تھے جو وقتاً فوقتاً سر اٹھاتے رہتے تھے کبھی ایک مسئلہ کھڑا ہوجاتا تھا اور کبھی دوسرا۔ جب اس کی تین منزلیں مکمل ہو چکی تھیں تو اچانک تعمیراتی عملے کو یہ معلوم ہوا کہ مینار ایک طرف سے نرم مٹی میں دھنس رہا ہے۔ مزید تعمیر فوراً روک دی گئی اور یہ اگلے 100 سال تک رکی رہی۔ خیال تھا کہ اتنے بڑے عرصے کے دوران میں مٹی سخت ہو جائے گی اور جھکاؤ ختم ہو جائے گا۔ 1350ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔
اب تک یہ مینار اپنی مقررہ جگہ سے 6 میٹر تک جھک چکا ہے اور اس ٹیڑھ پن کو دور کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ مسلسل ایک طرف کو جھک رہا ہے۔ سائنس دانوں نے حساب لگا کر بتایا ہے کہ یہ ہر سال 0.25 انچ یعنی ایک ملی میٹر کی رفتار سے جھک رہا ہے اور ایک دن ایسا آئے گا جب یہ بالآخر گر جائے گا۔ اس مینار کو 1990ء سے حفاظت اور اس کے تحفظ کی وجوہات کے پیش نظر عوام کے لیے بند کر دیاگیا اور ایک دہائی تک اس کے جھکاؤ کو روکنے کی کوششیں کی گئیں بالآخر 2001ء میں اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ ماہرین تعمیرات کا کہنا ہے کہ جدید طریقوں سے مینار کو اگلے 300 سالوں تک گرنے سے بچالیا گیا۔شہر پریتو سے بذریعہ ٹرین روم پہنچے۔ (جاری ہے)