اسلام آباد ( وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیشنل بنک کے سابق صدر سعید احمد کی ملازمت سے برطرفی کے خلاف درخواست خارج کردی ہے۔ سنگل بنچ سعید احمد کی عہدے سے برطرفی کی درخواست خارج کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے نیشنل بنک کے عہدے سے برطرف کئے جانے کی فیصلے کو درست قرار دیدیا۔ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کی‘ جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہاکہ درخواست گزار سعید احمد کو نیشنل بنک کی صدارت کے عہدے سے برطرف کئے جانے کی وجوہات پوچھیں عدالت نے کہا کہ کیوں نہ وفاق کی جانب سے سعید احمد کی برطرفی کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتاےا کہ نیب کی جانب سے وزارت خزانہ کو خط لکھا گیا تھا کہ سعید احمد کے خلاف نیب عدالت میں ریفرنس فائل کیا گیا ہے لہذا ان کو عہدے سے برطرف کیا جائے لہذا سعید احمد کو وفاقی کابینہ کی منظوری سے عہدے سے معطل کیا گیا تھا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت وفاق کو کیس کی تیاری کے لئے مزید دو ہفتے کا وقت دے تاہم عدالت نے وفاق کی جانب سے وقت دیئے جانے کی استدعا مسترد کر دی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی وفاق کو جو من میں آئے کرے، اس طرح ممکن نہیں۔ ریفرنس فائل ہونے پر کسی کو عہدے سے برطرف نہیں کیا جا سکتا۔ جج نے پوچھا کہ وفاق بتائے کہ ایسے کتنے پبلک آفس ہولڈر ز ہیں جن کے خلاف مقدمات ہیں کیا ان سب کو عہدوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ جب کسی کے خلاف الزام ثابت نہ ہو تب تک وہ شخص بے گناہ ہی ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی اٹارنی سے استفسار کیا کہ کیا عہدے سے برطرفی سے پہلے سعید احمد کو شوکاز جاری کیا گیا تھا جس پر ڈپٹی اتارنی نے لاعلمی کا اظہار کیا۔سعید احمد کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار ایک کنٹریکٹ ملازم ہے اور دوران ملازمت انہوں نے کبھی قانون و ضوابط کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی، ان کے خلاف نہ کوئی چارج فریم ہوا ، نہ شوکاز کیا گیا ۔ وکیل نے کہا کہ حکومت نے بغیر سنے معطل کیا جو کہ غیر قانونی ہے اور عدالت 28 اگست کے سیکرٹری خزانہ کے نوٹیفیکشن کو غیر قانونی قرار دے کر کالعدم قرار دے۔ وکیل نے کہا کہ سعید احمد کی مدت ملازمت 22 مارچ 2017 سے یکم جنوری 2019 تک ہے لہذا سعید احمد کو یکم جنوری 2019 تک بطور نیشنل بنک کے صدر کام کرنے کی اجازت دی جائے۔طویل سماعت کے دوران تین بار وقفہ ہوا۔ تیسرے وقفے کے بعد جب سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے نیب کی جانب سے وزارت خزانہ کو لکھے گئے خط کو پڑھنا شروع کیا اور کہا کہ ہو سکتا ہے کہ سعید احمد مکمل طور پر بے گناہ ہوں اور انہوں نے کوئی جرم نہ کیا ہو تاہم ان پر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے لئے منی لانڈرنگ میں معاونت کی الزامات ہیں۔ اس صورت حال میں سب سے بہتر صورت حال یہی تھی کہ ان الزامات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے سعید احمد خود اپنے عہدے سے استعفی دے دیتے۔ جج نے کہا کہ ایسے بہت سے پبلک آفس ہولڈر موجود ہیں جن کے خلاف مقدمات ہیں لیکن انہیں عہدوں سے برخاست نہیں کیا گیا۔ عدالت اگر سعید احمد کے حق میں فیصلہ دے تو انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہونگے لہذا ان کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔
درخواست خارج