نواسہ رسول امام حسین ؓ اورآپ کے مظلوم شہید خاندان کو یومِ شہادت پر رنج و غم اور انتہائی عقیدت کے ساتھ یاد کیا گیا۔اس سال بھی قریہ قریہ کوچہ کوچہ جلوس نکالے گئے اور کربلا کے واقعات کو دہرایا جاتا رہا۔ صدیوں سے یادوں کا چراغ یونہی جل رہا ہے مگر درد ہے کہ کم نہیں ہو رہا۔ بقول مولانا ابوالکلام آزادؒ بغیر کسی مبالغہ کے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کسی المناک حادثہ پر نسلِ انسانی کے اس قدر آنسو نہ بہے ہونگے جس قدر اس سانحہ پر بہے ہیں؛مگر مقام ِ امام حسین ؓ کاحق اس وقت ادا ہو سکتا ہے جب ہر مسلمان امام عالی مقامؓ کے اس مشن کو لے کر آگے بڑھے جس کیلئے آپؓ نے اپنی جان قربان کر دی۔ یہ شہادت اقتدار کیلئے نہیں تھی بلکہ ظلم اور ملوکیت کی راہ روکنے کیلئے تھی۔ جہاں ظلم ہے وہاں حق کی آواز بلند کرنا فرض ہے۔ظلم چہرے بدل بدل کر ہر دور میں آتا ہے۔ نئے نئے یزید ہر دور میں نئی شکل و صورت کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ آج بھی یہ جبر کی شکل میں موجود ہیں۔ عدالتی نظام، بینکنگ اور انشورنس کا سودی نظام، پرائیویٹ تعلیمی نظام، پرائیویٹ صحت کا نظام ، جمہوریت کے نام پر دفتری نظام سب کے سب کمزور بے بس اور مجبور شکار ڈھونڈتے ہیں۔ لوگ بیمار ہوں تو ڈاکٹر خوش ہوتے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے کھڑے ہوں تو وکیل اور عدالتیں کامیاب، کسی کو بار بار دفتروں کا چکر لگانا پڑے تو بابو وں کی چاندی۔ بچے بار بار فیل ہوں تو سکول والوں کو کوئی پریشانی نہیں۔ کسی ادارے کو انسانیت سے کوئی سروکار نہیں۔ ان میں ہر جگہ فیس کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان تھا کہ ’’ ظالموں کے ساتھ رہنا بجائے خود ظلم ہے‘‘۔ نجانے کب تک ہم یہ ظلم برداشت کرتے رہیں گے۔ ظلم کے خلاف جہاد ہی امام حسین ؓ کی سنت ہے۔ ہم باتوں سے اس خلا کو پورا نہیں کر سکتے۔ اپنی اپنی جگہ پر ہر محکمے کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہمارا فرض ہے۔ عمران خان ریاست مدینہ کو اپنی منزلِ مقصود کہتے ہیں۔ یہ وہ معاشرہ ہے جس کوبہترین کہا گیا۔عادل ۔جن کے ایمان بھی اچھے اور کام بھی اچھے تھے۔ خلائق میں بہترین۔جو سچ کی تبلیغ اور تشہیر کرتے ہیں اور اسی کے مطابق انصاف بھی کرتے تھے۔جہاں جھوٹ ، بد عہدی،گالی اور خیانت کو جڑ سے اکھیڑ دیا گیا ہو۔ ہم اخلاقی پستی کا شکار ہیں تو آج دشمن نے ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے۔ ہندوستان کو ساری دنیا علاقے کا چودھری بنانا چاہتی ہے۔ وہ پاکستان کا پانی بند کرنا چاہتا ہے، وہ افغانستان کے ذریعے پاکستان کو دکھ پہچاتا ہے۔ اس نے پاکستان کے اندر پاکستان کے دشمن خرید رکھے ہیں۔ ہمارے پاس ایٹم بم موجود ہے مگر اخلاقی قوت نہیں۔ اخلاقی قوت کے بغیر ایٹم بم دشمن پر رعب نہیں ڈال سکتا۔ اخلاقی قوت کا تہس نہس سودی کمیشن کھانے اور کھلانے والوں نے کیا۔ ایمان دار تو ہم پیدائشی ہیں مگر اللہ اور اس کے رسول ؐکی مقرر کردہ ساری حدود ہم کراس کر چکے ہیں۔ عمران خان ملک کو بچانا چاہتا ہے تو عدالتی نظام اور دفتری نظام کو پہلے درست کرے۔لوگ تکلیف میں ہیں۔سرکاری ملازمین (بیورو کریسی) اپنے آپ کو افسران نہ سمجھیں بلکہ خدمت گذار جانیں۔ لوگوں کے ٹیکس سے جن کو تنخواہ ملتی ہے وہ ادارے لوگوںکے مسائل کے حل کرنے کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ان دجالی اداروں کے خلاف شکائت ہوا میں اڑا دی جاتی ہے۔ ان شکائتوں کو نبٹانے کیلئے اعلیٰ ترین انسانوں پر مشتمل نیٹ ورک کی ضرورت ہے جو گلی محلے میں عام لوگوں کی بات سن اور سمجھ سکے اور ظلم سے ان کو بچا سکے۔جمہوریت کا پہلا یونٹ گھر کے افراد ہیں پھر گلی محلہ ہیں۔پھر یہی افراد پارلیمان تک پہنچتے ہیں۔ ادارے بنیادوں سے بنتے بنتے اوپر کی طرف جاتے ہیں۔محض اسمبلیوں کے انتخابات سے جمہوریت کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔عوام سے ڈائریکٹ رابطہ ہی مسائل کے حل میںپہلا قدم ہو سکتا ہے۔ماڈرن دنیا میں اس کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔sustainability کی بنیاد عوام کی شمولیت یعنیparticipationپر رکھی جاتی ہے۔ خزائن الارض (درخت، زمین، پانی، معدنیات اور ماحولیات)کا احسن استعمال، معاشرتی ترقی جس میں تعلیم و تربیت اور صحت کلیدی حثییت رکھتے ہیں، معاشی ترقی۔ ان تینوں عناصر پر کام کرنے کے بجائے کمیشن ایجنٹوں نے عالمی قرضوں کے ذریعے ملک کو غیر ملکی طاقتوں کا یرغمال بنوا دیا۔قران و سیرت میں مشکل اوقات میں راستہ بھی دکھایا گیا ہے۔ پانی کیلئے بحیثیت قوم توبہ کرنے کی ضرورت ہے سورہ نوح میں تفصیل سے توبہ سے ملنے والی نعمتوں کا ذکر ہے۔ سورہ جن میں بتایا جاتا ہے کہ راہ راست پر ثابت قدم رہو تو ہم وافر پانی سے سیراب کریں گے۔پانی بچانے کی مہم چلانی ہوگی۔ ڈیم کیلئے رقم جمع کرنا خود انحصاری کی طرف پہلا قدم ہے۔درخت ساری قوم لگائے۔ ادارے اپنے ملازمین سے پوچھیں، والدین اپنی اولاد کی حوصلہ افزائی کریں کہ ہر شخص اس فرض میں شامل ہو۔بنجر زمین کاشت کاروں کو لیز پر دے کر کاشت کرانا ضروری قرار دیا جائے۔بے کار زمین اور ویران گھر استعمال کرنے یا بیچنے کا حکم دیا جائے توگھروں کی کمی پوری ہو سکتی ہے ۔ اسلامی معشیت کی بنیاد قرض نہیں بلکہ رضاکارانہ شراکت ہے۔ امیروں کو تعلیم تربییت اور ترغیب دلائی جائے کہ ان کے مال و دولت میں سائل اور محروم کا حصہ رکھا گیا ہے۔
حکومت کمزور طبقات کی سرپرستی کرے۔ ہر صوبے میں اور ہر شہر و گاؤں میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ ظلم روا رکھا جا رہا ہے۔ظلم کے خلاف زبانی ،قلمی یا مالی جہاد بڑی بات ہے مگرعملی طور پر کسی کو اس کا حق دلوانا اصل آزمائش ہے۔ جن چار خواتین کو میں ان کے والدین کی وراثت میں قانونی اور شرعی حصہ دلوانے کی کوشش پچھلے کئی مہینوں سے کر رہی ہوں وہی جانتی ہیں کہ جہاد کیا ہوتا ہے۔ پولیس کے پاس گئے انہوں نے کہا مصالحتی کمیٹی کے پاس جاؤ۔ وہاں گئے تو کمیٹی نے کہا پٹواری سے کاغذ لاؤ۔ وہ لائے تو کمیٹی جس کے سربراہ ایک ریٹائرد جرنیل ہیں ۔کہنے لگے کہ مکانوں پر قبضہ چونکہ بھائیوں کا ہے لہٰذا اس میں بہنوں کو کوئی حصہ نہیں مل سکتا۔ زمین بھی استحاق سے آدھی دینے پر راضی ہوئے مگر زمین تک پہنچنے کا راستہ گاڑی کا نہیں بلکہ پیدل آمد و رفت کیلئے ہو گا۔اس کمیٹی کو نہ عورتوں کی وراثت کا پتہ ہے نہ ہی قانون کا ۔یہ اسی طرح کی پنچایت ہے جس کا ذکر پنجاب اور سندھ کے دور دراز علاقوں میں اکثر ہوتا ہے۔ اکثر دفتر میں جو تذلیل عورت کی ہوتی ہے اس کے انصاف کیلئے شاید قیامت کا انتظار کرنا ہوگا۔ اب کہتے ہیں ان بہنوں کو عدالت میں لے جاؤ۔پہلے وکیل کرو۔۔۔پھر پٹواری سے سارے گوشوارے اور لٹھے نکلواؤ اور پھر جج صاحب فیصلہ کریں گے۔ یہ ہے عمران خان کا کے پی۔ جس کا چرچہ ہر تقریر میں ہوتا ہے۔یہ جد وجہد جاری رہی گی۔ مجھے یہ ڈر نہیں کہ میںاپنی کوشش میں کامیاب ہونگی یا نہیں میں اللہ کے سامنے اپنی بخشش کا سامان پیدا کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کر رہی ہوں۔ دعا کیجئے گا۔