کالم لکھنے سے پہلے ہی میں نے ایک جملے میں وزیراعظم عمران خان سے گزارش کرتے ہوئے کل لکھا تھا کہ عمران خان بہادر انسان ہے۔ اب وہ بہادر حکمران بھی بن کے دکھائے۔ بھارت کے ساتھ معاملات اس طرح آگے نہیں بڑھیں گے کہ اسے مذاکرات کی پیشکش کی جائے۔ عمران خان نے اس کا نتیجہ دیکھ لیا ہے۔ اس کاکوئی اثر امریکہ پر بھی نہیں پڑے گا کیونکہ وہ بھی بھارت کے آگے لگا ہوا ہے۔ یہاں مناسب لفظ تو یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے معاملے میں بھارت کے ’’تھلے‘‘لگا ہوا ہے۔اس ضمن میں میری تجویز ہے کہ جس طرح بھارت نے فوری طور اجمل قصاب کو پھانسی پر چڑھایا تھا‘ ہم بھی کلبھوشن کو پھانسی پر چڑھائیں۔پچھلی حکومت نے بھارت کو پاکستان میں سہولتیں بھی فراہم کی تھیں۔ عدالت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت دے رکھی ہے۔ بھارت کے موجودہ غیر سفارتی رویئے پر’’جواب‘‘ ضرور سامنے آنا چاہئے۔ کلبھوشن کے علاوہ بھی کئی بھارتی جاسوس پاکستان میں موجود ہونگے۔ ان کیلئے کوئی مؤثر پلاننگ کی جانی چاہئے۔
لارڈ نذیر دوست ہیں اور پاکستان کیلئے عزت کا باعث ہیں۔ وہ سرگرم رہتے ہیں مگر اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ لارڈ صاحب کہتے ہیں کہ بھارتی آرمی چیف کے بیان پر اقوام متحدہ نوٹس لے۔ پہلے کبھی اقوام متحدہ نے مسلم ممالک یا تیسری دنیا کے ملکوں کے کسی پروگرام کے حوالے سے نوٹس لیا ہے؟ اقوام متحدہ صرف امریکی معاملات میں نوٹس لیتی ہے اور پھر ان پر امریکہ نوٹس لیتا ہے۔ عالم اسلام‘ عالم عرب اور تیسری دنیا کے ممالک پر ظلم و ستم اور ناانصافیوں کے ڈھیر لگا دیتا ہے۔ امریکہ کو اس کی ضرورت نہیں ہے مگر وہ دنیا والوں کو دھوکے میں رکھتا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ ایک یہی بات اقوام متحدہ کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اب لارڈ نذیر بھی پاکستان کو اقوام متحدہ جانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اب تو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارت ایک بڑی قوت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ابھی پاکستان اس کے رستے کی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ اس رکاوٹ کو مزید مضبوط کر رہا ہے۔مذاکرات کا واویلا تو پہلے ہی مچتا رہا ہے۔ ’’مذاکرات‘‘ سے کیا حاصل ہوا ہے؟ اب مذاکرات سے کیا ہو پاتا۔ یہ تو ایک سیاسی فارمیلٹی ہے۔ بھارت اب سیاست میں بھی مات کھا گیا۔
بھارتی آرمی چیف کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کشمیر کے نہتے لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا ہے مگر اسے معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا میں تاریخ میں جہاں بھی آزادی کی تحریک چلی ہے‘ کامیاب ہوئی ہے۔ کبھی کوئی بھارتی سپاہی واصل جہنم نہیں ہوا۔ زخمی ضرور ہوئے ہونگے‘ یہ سپاہی اندر سے زخم زخم ضرور ہونگے جبکہ پاکستان ان دہشت گردوں پر قابو پا چکا ہے جو باقاعدہ مسلح ہوتے ہیں جنہیں وہ جنگجو کہتے ہیں۔ پاکستانی فوج بہت تجربہ حاصل کر چکی ہے مگر مجبور بھارتی سپاہی بھی سیاسی دہشت گردی کا شکار ہیں انہیں بھی ’’آزادی ‘‘ ملنا چاہیے۔کسی کے خلاف بات کرنا مشکل ہوتا ہے مگر پاکستانی سیاستدانوں کے لئے بھارت کے خلاف بیان دینا بڑا آسان ہے یہی حال بھارتی انتہا پسندوں کا ہے اب کشمیری حریت لیڈر یٰسین ملک کی بیوی مشعال ملک لیڈر بن گئی ہے ان کے بیانات بڑے تواتر سے شائع ہوتے ہیں۔ ناصر اقبال خان کی ایک تقریب میں مشعال ملک نے جو تقریر کی اس نے لوگوں کو حیران کر دیا۔ ان کا آج کا بیان بھی قابل ذکر ہے ۔’’بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر جنگ مسلط کر رکھی ہے کشمیر میں بھارت نے ہمیشہ دھوکہ دیا ہے ‘‘۔
بھارت کی ہٹ دھرمی ہمیشہ پاکستان اپوزیشن کو بھی حکومت کے حق میں بات کرنے پرمجبور کر دیتی ہے گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کہا ہے کہ بھارت مذاکرات کی دعوت کو ہماری کمزوری نہ سمجھے۔مولا بخش چانڈیو نے بھی کہا ہے کہ بھارت ہمیں جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ویسے ایک بات میرے دل میں تڑپتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دینے میں جلدی کی ہے جسے جلد بازی نہیںکہا جا سکتا۔
جلدی اورجلدبازی میں فرق ہے، جلد بازی میں بات ذرا منفی ہو جاتی ہے بھارت کو کچھ دیر میں پتہ چل جائے گا کہ جلد بازی اس نے کی ہے عمران خان بھی جلدی نہ کریں مگر لوگ تبدیلی کے لئے بہت منتظر ہیں۔
ہمارے ایک دوست تھے اے جی جوش بہت کمال کے مہربان آدمی تھے ۔ ادیبوں شاعروں کو
اپنی برادری سمجھتے تھے۔ اُن کا گھر ایک ادبی ٹھکانے کی طرح تھا۔
انہوں نے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا۔ اس کا نام رکھا ’’ادب دوست‘‘ اُن کے فوت ہونے کے بعد بھی یہ رسالہ باقاعدگی سے نکل رہا ہے۔ اتنی تصویریں کسی کی ادیبوں شاعروں کے ساتھ نہ ہونگی، جتنی اے جی جوش کے ساتھ نظر آتی ہیں اور ’’ادب دوست‘‘ میں شائع بھی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی میری بھی کوئی تصویر شائع ہو جاتی ہے۔ مدیر مسئول ڈاکٹر سعید اقبال سعدی ہیں‘ مدیر اعلیٰ خالد تاج ہیں۔ میں سیاسی کالم میں بھی شعر و ادب کی بات کر لیتا ہوں جسے لکھنے والوں کا طبقہ پسند کرتا ہے۔ تازہ شمارے میں شوکت علی شاہ ، سلیم کوثر، جلیل عالی ، جان کاشمیری، اشرف جاوید، اشفاق ورک، افتخار بخاری، نسیم سحر کے علاوہ بھی بہت دوست شامل اشاعت ہیں۔اے جی جوش خود کہتے تھے کہ میں لاہوری جوش ہوں اور جوش ملیح آبادی کا معتقد اور معترف ہوں۔ ہم خالد تاج کے کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے جوش صاحب کو زندہ رکھا ہوا ہے۔آخر میں فیصل آباد کی ا یک معروف اور اچھی شاعرہ گلفام نقوی کی غزل کے اشعار جو میں نے کہیں سُنے تھے یا پڑھے تھے۔ آپ بھی دیکھئے خوبصورت اشعار ہیں ۔
ربا نِت نِت کراں دعاواں عرضاں کر منظور
پل پل تیرا ورد کراں میں‘ رکھ غماں توں دور
چکڑ بھریاں تاں وی پھڑکے توں سینے نال لاویں
میں وی اک ثنا دل لے کے آئی ترے حضور