کشور ناہید نے ایک کالم میں لکھا ’’قتیل صاحب، ندیم قاسمی صاحب کے گھروں کی اب کوئی نشانی نہیں‘‘ قتیل شفائی کے صاحبزادے نوید قتیل سے اسی مکان میں میری ملاقات رہتی ہے، جہاں قتیل صاحب اقامت پذیر رہے۔ کشور ناہید کا کالم پڑھنے کے بعد نوید قتیل کو میں نے فون پر دریافت کیا کہ کیا تم سمن آباد سے کسی اور جگہ شفٹ ہو گئے ہو۔ اس کا جواب تھا۔ نہیں تو، آپ کو کس نے بتایا؟ میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ اسی جگہ مقیم ہوں، جہاں میرے والد محترم رہتے تھے۔ سمن آباد کے علاقے میں شباب چوک (فلمساز شباب کیرانوی کے نام سے منسوب) مشہور ہے۔ یہ چوک ندیم شہید روڈ پر واقع ہے۔ چوک سے دائیں ہاتھ تیسری گلی کے شروع میں قتیل شفائی روڈ کا بورڈ آپ کو نظر آئے گا۔ چند گز آگے جائیں تو دائیں ہاتھ گلی میں پہلا مکان قتیل شفائی کا ہے۔ یہ غالب کالونی کہلاتی ہے۔ نویدقتیل کو ملنے گیا تو بڑی نیم پلیٹ قتیل شفائی کی نظر آئی۔ کشور ناہید کا کالم نوید قتیل کی نظر سے نہیں گزرا تھا۔ کالم پڑھ کر اسے تعجب ہوا کہ لوگ بغیر تحقیق کیسے کلھ دیتے ہیں؟ نوید قتیل، کسٹم ڈیپارٹمنٹ سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ یہ شاعر تو نہیں البتہ انہیں گائیکی کا شوق ہے۔ بعض محفلوں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مکان اسی جگہ ہے۔ میں نے اس میں تبدیلیاں کیں اور ماڈرن Look دیا ہے۔ ڈرائنگ روم میں ایک طرف قتیل صاحب کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ اوپر میڈلز اور مختلف شخصیات کے ساتھ قتیل صاحب کی تصویریرں آویزاں تھیں۔ نوید کا کہنا تھا کہ ابا جی (قتیل شفائی) نے 1969ء میں 13 مرلے کا یہ پلاٹ 650 روپے فی مرلہ کے حساب سے خریدا تھا۔ ہمارے ساتھ آرٹسٹ بشیر موجد اور احمد ندیم قاسمی نے مکان بنوائے۔ بشیر موجد (اب مرحوم) یہاں سے شفٹ ہو گئے تھے البتہ احمد ندیم قاسمی وفات تک اسی مکان میں مقیم رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کا اکلوتا بیٹا نعمان قاسمی اسی مکان میں بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ اس نے تو مکان میں کسی قسم کا ترمیم و اضافہ بھی نہیں کیا۔ پھر نشانی کیسے ختم ہو گئی؟ قتیل صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی گلاسگو (سکاٹ لینڈ) میں مقیم ہیں۔ نوید قتیل کی تین بیٹیاں ہیں جو شادی شدہ ہیں۔ قتیل صاحب والے مکان میں وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ مقیم ہے۔ اس نے بتایا کہ میں نے تو اپنی نیم پلیٹ بھی نہیں لگائی۔ آپ نے دیکھا کہ صرف قتیل صاحب کے نام کی پلیٹ مین گیٹ کے ساتھ لگی ہے ۔ قتیل شفائی سے میری ملاقاتوں کا آغاز 1985ء میں ہوا جو ان کی وفات تک جاری رہا۔ قتیل صاحب کا انتقال 11 جولائی 2001 ء میں ہوا۔ قتیل صاحب مہمان نواز، خوش خوراک اور خوش لباس تھے۔ ان کا دسترخوان وسیع تھا۔ عام طور پر کرتا پاجامہ میں ملبوس دیکھا مگر شلوار قمیص اور سوٹ بھی پہن لیا کرتے تھے۔ ان کا آبائی شہر ہری پور (ضلع ہزارہ) تھا۔ ان کی آپ بیتی ’’گھنگھرو ٹوٹ گئے‘‘ وفات کے چھ سال بعد شائع ہوئی جس کا اہتمام نوید قتیل نے کیا۔ ابتدائیہ ان کے فرزند نوید نے لکھا۔ یہ یادیں ساٹھ سال سے بھی زیادہ عرصہ پر محیط ہیں۔ قتیل صاحب کھلا کر اور ’’پلا‘‘ کر خوشی محسوس کرتے۔ مجھے بھی ان کی بعض دعوتوں میں شرکت کا موقع ملا۔
حبیب جالب، احمد راہی، حمید اختر، ریاض الرحمن ساغر، اظہر جاوید، حمید سیٹھی، اے جی جوش، خلیل احمد (موسیقار) جمیل ناز اور دیگر شخصیات سے ان محفلوں میں ملاقاتیں رہیں۔ ایک اخبار نے فیض احمد فیض کا انٹرویو کیا۔ قتیل صاحب نے آفر کی کہ فیض صاحب کا انٹرویو میری رہائش گاہ پر کیا جائے۔ اس موقع پر انہوں نے پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا۔ انٹرویو کے پینل میں صفدر میر، اشفاق احمد، قتیل شفائی، فارغ بخاری، جیلانی کامران، ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر اجمل نیازی، ڈاکٹر حسن رضوی اور راقم شامل تھے۔ قتیل شفائی کی شخصیت اور فن پر پاکستان اور انڈیا میں متعدد مقالے لکھے گئے۔ یہ مقالے کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ نوید قتیل نے مجھے ’’کلیات قتیل شفائی‘‘ پیش کی جو 2018ء میں شائع ہوئی۔ اس میں قتیل صاحب کا اردو اور پنجابی کلام شامل ہے۔ کلیات میں قتیل صاحب کی یہ کتابیں شامل ہیں برشگال، صندل، مونا لیزا، صنم، پھوار، نذرانہ، دھڑکن، پرچم، پنجابی گیت۔ کلیات کے آخر میں قتیل شفائی کی ایک صفحے کی تحریر بھی شائع کی گئی ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں ’’پرچم، میں میری وہ تخلیقات شامل ہیں جو میں نے اپنے وطن کی مٹی سے محبت کے ثبوت میں کہی ہیں۔ میرا یہ کلام وطن کی ہر خوشی اور ہر تمنا کے ساتھ والہانا رقص کرتا ہے۔ مجھے جب بھی کسی قومی ضرورت کا احساس ہوا ہے، میں نے اپنے غنائی لہجے میں وطن کے گیت گائے ہیں۔