وزیراعظم عمران سے ملاقات میں ٹرمپ کا کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا اعادہ اور بھارت سے بات کرنے کا عندیہ
وزیراعظم عمران خان نے نیویارک میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پیر کے روز ملاقات کی۔ اس موقع پر امریکی صدر نے کہا کہ اپنے دوست کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کی تجارت بہت کم ہے‘ پاکستان کے ساتھ کئی معاملات پر بات چیت جاری ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے کہا کہ وہ افغان مسئلہ پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کو ثالثی کی ایک بار پھر پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت چاہیں تو ثالثی کیلئے تیار ہوں۔ میں بہت اچھا ثالث ثابت ہونگا اور ناکام نہیں ہونگا۔ آپ اور بھارتی وزیراعظم سے میرے بہت اچھے تعلقات ہیں‘ میں اپنی پیشکش پر قائم ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعظم عمران خان پر بہت اعتماد کرتے ہیں‘ ان سے پہلے امریکی قیادت نے پاکستان سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ عمران خان بہترین وزیراعظم اور اچھے دوست ہیں‘ آپ تیار ہیں مگر دوسری طرف بھی ثالثی کی پیشکش قبول کرے تو میں تیار ہوں۔ ٹرمپ نے کہا کہ اتوار کے روز ہیوسٹن میں بھارتی وزیراعظم مودی نے بہت جارحانہ زبان استعمال کی۔ وزیراعظم عمران خان خطے کی ترقی کیلئے کام کرنا چاہتے ہیں‘ امید ہے پاکستان اوربھارت مسئلے کے حل کیلئے مل کر کام کرینگے۔ خطے کے تنازعات کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان کا کردار اہم ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری سے بہت سی توقعات ہیں۔ امریکہ بڑی طاقت ہے‘ اسکی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ امریکی صدر بڑے ملک کے صدر ہونے کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالیں۔ پاکستان کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ کشمیر میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے جسے ختم ہونا چاہیے‘ مقبوضہ کشمیر کی حالت جوں کی توں رہی تو حالات مزید خراب ہونگے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ سے کہا کہ وہ مودی سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اٹھانے کا کہیں۔ اس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ بھارتی وزیراعظم سے اس بارے میں بات کرینگے۔ وزیراعظم عمران خان نے نیویارک کے مقامی ہوٹل میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن‘ ترک صدر رجب طیب اردوان‘ سینیگال کے صدر‘ اطالوی وزیراعظم اور چینی وزیر خارجہ سے بھی ملاقاتیں کیں اور انہیں مسئلہ کشمیر میں پاکستان کے موقف اور مودی سرکار کے مظالم سے خطے میں پیدا ہونیوالی صورتحال سے آگاہ کیا۔
یہ امر واقع ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ماہ چار اگست سے جاری بھارتی فوجوں کے مظالم اور کرفیو کے تسلسل کے باعث کشمیری عوام کے بڑھتے ہوئے روٹی روزگار کے اور سماجی مسائل سے آج پوری دنیا آگاہ ہوچکی ہے۔ اسی طرح مودی سرکار نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھائے رکھنے کی پالیسی اختیار کرکے اور اسکی سلامتی کو آئے روز چیلنج کرکے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو جو سنگین خطرات لاحق کر رکھے ہیں‘ اس کا بھی عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو مکمل ادراک ہے اور اسی بنیاد پر عالمی قیادتوں بشمول امریکی صدر ٹرمپ اور نمائندہ عالمی اداروں بشمول اقوام متحدہ‘ سلامتی کونسل‘ ہیومن رائٹس کونسل‘ یورپی و برطانوی پارلیمنٹ‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے بھارتی مظالم کیخلاف تسلسل کے ساتھ آواز اٹھائی جارہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈائون ختم کرنے اور حالات معمول پر لانے کیلئے مودی سرکار سے تقاضا کیا جارہا ہے۔ صدر ٹرمپ تو کشمیر ایشو پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی مسلسل چھٹی بار پیشکش کرچکے ہیں جنہوں نے پہلی بار یہ پیشکش بھارتی وزیراعظم مودی کو اس وقت کی تھی جب انہوں نے مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے ٹرمپ سے کردار ادا کرنے کیلئے کیا تھا۔ یہی پیشکش انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے وائٹ ہائوس میں ملاقات کے دوران دہرائی جس کے بعد انہوں نے وائٹ ہائوس میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے دوبار اس پیشکش کا اعادہ کیا اور پھر یواین جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے نیویارک آئے ہوئے عالمی قائدین سے ملاقاتوں کے دوران بھی انہوں نے ثالثی کی پیشکش کی جس کا انہوں نے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں پھر اعادہ کیا مگر مودی سرکار نے عالمی قیادتوں اور اداروں کے اس دبائو کے باوجود نہ صرف مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اپنے عزائم اور منصوبہ بندی سے رجوع نہیں کیا بلکہ پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ گزشتہ روز بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور آرمی چیف بپن راوت نے اسی تناظر میں گیدڑ بھبکی لگائی ہے کہ پاکستان 65ء اور 71ء والی غلطی نہ دہرائے‘ ہم اس بار بالاکوٹ سے بھی آگے جا سکتے ہیں۔ بھارت ایسی گیدڑ بھبکیاں یقیناً اپنی طاقت کے زعم میں اور کھلم کھلا امریکی سرپرستی حاصل ہونے پر لگاتا ہے جس نے اپنی ایسی ہی جنونیت کے باعث کے دو ایٹمی ممالک کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کیا ہے جس کے باعث علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز نیویارک میں امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز سے خطاب کرتے ہوئے اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ ملک کی سلامتی کے تحفظ و دفاع کیلئے آج پاکستان کی حکومت اور فوج ایک پیج پر ہے۔ اگر بھارتی جنگی جنونیت کے باعث دو ایٹمی ملکوں میں جنگ ہوئی تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اب یہ عالمی قیادتوں اور اداروں کے سوچنے کی بات ہے کہ وہ ایک جنونی کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق خطرات کس طرح ٹالتے ہیں اور پاکستان اور بھارت کے مابین جاری دیرینہ تنازعہ کشمیر کیسے حل کرتے ہیں جبکہ بھارت نے اپنے 5‘ اگست کے اقدام کے تحت اس مسئلہ کو مزید گھمبیر بنادیا ہے اور اب وہ پاکستان سے ملحق آزاد کشمیر پر بھی نظر بدگاڑے بیٹھا ہے جس کے باعث بھارت کے ہاتھوں پاکستان اور خطے کے امن و سلامتی کو مزید خطرات لاحق ہونگے۔ اگر عالمی قیادتوں اور اداروں کو اس صورتحال کا مکمل ادراک ہے جنہیں پاکستان کی جانب سے صورتحال کی سنگینی کے بارے میں مفصل بریفنگ بھی دی جاچکی ہے تو کیا انکی ذمہ داری نہیں کہ وہ بھارتی جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنے کا کوئی ٹھوس اور عملی اقدام اٹھائیں اور نیویارک میں جاری یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کو دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مختص کردیں تاکہ بھارت پر مؤثر انداز میں عالمی برادری کا دبائو پڑ سکے اور وہ اپنی جنونیت سے باز آئے تاہم محسوس یہی ہوتا ہے کہ عالمی قیادتیں بالخصوص امریکی صدر ٹرمپ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرے کا باعث بننے والے اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں نہ انکی جانب سے عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے بلکہ انہوں نے دہری پالیسی اختیار کررکھی ہے جس کے تحت وہ بھارت سے تعلقات میں بھی کوئی رخنہ پیدا نہیں ہونے دینا چاہتے اور پاکستان اور کشمیری عوام کیلئے بھی رسمی طور پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ چنانچہ جنونی مودی سرکار کو اپنے ظالمانہ اقدامات پر عالمی برادری کا کوئی دبائو محسوس نہیں ہوتا۔ اگر صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنے ثالثی کے کردار میں سنجیدہ ہوتے تو کوئی وجہ نہیں کہ بھارت انکی اس پیشکش کو رعونت کے ساتھ ٹھکراتا اور سرکشی اختیار کرتا۔ اسکے برعکس انہوں نے ہیوسٹن کے این آر جی سٹیڈیم میں بھارتی وزیراعظم مودی کیلئے اہتمام کردہ استقبالیہ میں مودی کے جلو میں اور انکی باہوں میں باہیں ڈال کر شرکت کی‘ جہاں انہوں نے مسئلہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اور کرفیو کیخلاف کسی قسم کی بات کرنے اور ثالثی کی پیشکش دہرانے کے بجائے اس معاملہ میں مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی اور بھارت‘ مودی اور ہندوئوں کے ساتھ اپنی دوستی کو جتاتے ہوئے اسلامی دہشت گردوں کیخلاف مل کر جدوجہد کرنے کا اعلان کیا جس پر مودی کو بھی یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ امریکی نائن الیون اور ممبئی حملوں میں ایک ہی ملک ملوث ہے۔ اس طرح انہوں نے پاکستان کا نام لئے بغیر اس پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالا اور کشمیر میں جاری بھارتی دہشت گردی سے صدر ٹرمپ نے بھی صرفِ نظر کرلیا۔ اس طرح انہوں نے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے بجائے خود کو بھارت کے ساتھ نتھی کرکے ایک فریق بنالیا چنانچہ ان سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے بھارت کے حق میں ڈنڈی نہیں ماریں گے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے یقیناً اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ ٹرمپ کا مکمل جھکائو بھارت کی طرف ہے اس لئے کشمیر پر انکی ثالثی کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ اور دوسری عالمی قیادتوں بالخصوص مسلم دنیا نے پاکستان‘ بھارت اور کشمیر کے معاملہ میں اپنی دہری پالیسیاں قرار رکھیں اور بھارتی جنونیت کے آگے بند باندھنے کیلئے کوئی تردد نہ کیا تو دو ایٹمی طاقتوں کے باہم ٹکرانے کا نتیجہ انتہائی خوفناک برآمد ہوگا جو اس پورے کرۂ ارض کی تباہی پر منتج ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں عالمی قیادتوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور یواین جنرل اسمبلی کے جاری اجلاس کو مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل کیلئے مختص کردینا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان اس نمائندہ عالمی فورم پر 27 ستمبر کو اپنے خطاب میں بھارتی مظالم‘ اسکے توسیع پسندانہ عزائم اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکی سازشوں کو بلاشبہ اور ٹھوس انداز میں اجاگر کرینگے اور بھارت کے ہاتھوں عالمی اور علاقائی امن و سلامتی کو لاحق خطرات سے بھی مفصل آگاہ کرینگے۔ عالمی قیادتوں کو اس سنگین ایشو پر بہرصورت کان دھرنے چاہئیں اور مصلحتوں کے لبادے سے باہر نکل کر کوئی جامع اور ٹھوس حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ اس سے صرفِ نظر کرکے بھارت کے ہاتھوں عالمی تباہی کی نوبت لانے کا اہتمام ہی کیا جائیگا۔