جرأت و اسقامت کی’’ علامت‘‘ ۔چوہدری ظہور الہی شہید

چوہدری ظہور الہیٰ کے خاندان کی کہانی دریائے چناب (سوہنی مینوال کی محبت کی داستان اسی دریاکی بے رحم لہروں نے تحریر کی ہے )کے کنارے واقع گجرات کے ایک چھوٹے سے گائوں ’’نت وڑائچ‘‘ سے شروع ہوتی ہے جو اب چوہدری سالک اور مونس الہیٰ کے گرد گھوم رہی ہے۔ آج سیاست تیسری نسل کو منتقل ہو رہی ہے ظہور الہی شہید کا شمار پاکستان کے ان جرات مند سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے مشکل ترین حالات میں کلمہ حق بلند کیا۔ انہوں نے جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں زندگی گذارنا قبول کرلیا لیکن اس وقت کے حکمران کے ہاتھ پر’’ بعیت ‘‘ کرنے سے انکا ر کر دیا۔ چوہدری ظہور الہی شہید کے جرات مندانہ کردار کی وجہ سے اپوزیشن کا بھی حوصلہ بڑھا ۔ اگرچہ انٹیلی جنس نے آگاہ کر دیا تھا کہ ان پرکسی وقت بھی قالانہ حملہ ہو سکتا ہے لہٰذا جہاں انہیں اپنی آمدورفت ’’ خفیہ‘‘ رکھنی چاہیے وہاں وہ اپنی حفاظت کے لئے خصوصی انتظامات کر لیں لیکن گجرات کے اس بہادر ’’جٹ ‘‘ نے حالات کی کوئی پروا کئے بغیر اپنی روزمرہ کی مصروفیات ترک نہیں کیں یہی وجہ ہے 25ستمبر 1981 دن دیہاڑے لاہور میں شہید کر دئیے گئے۔ چوہدری ظہور الہی شہیدٰ ایک سیلف میڈ شخصیت تھی جس نے محنت ، کمٹمنٹ اور قربانی کے جذبے سے ملکی سیاست میں بلند مقام پایا ۔ ان کے والد محترم چوہدری سردار خان وڑائچ کو صوفی شاعری سے لگائو تھا ۔ چوہدری ظہورالہیٰٰ نے ایک عام آدمی کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ انہوں 1950ء میں میدان سیاست میں قدم رکھا تو چند سالوں میںملکی سیاست میں بلند مقام پیدا کر لیا۔ انہوں نے جو’’ سیاسی ورثہ ‘‘ چھوڑا ہے آج ان کی اولاد اس سیاسی ورثے کا پھل کھا رہی ہے۔ آج ملکی سیاست میں چوہدری شجاعت حسین ، چوہدری پرویز الہی اور ان کی اولاد کو جو مقام حاصل ہے۔ یہ سب کچھ چوہدری ظہور الہی کی محنت شاقہ کا ثمر ہے۔ ان جیسی جرأت و استقامت کے حامل سیاست دانوں کی ملکی سیاست میں کمی ہے۔ وہ دوستوں کے دوست اور قبر تک دشمنی نبھانے والے تھے۔ جب تک ذوالفقار علی بھٹو سے دوستی تھی تو ان کی تصویر اپنے ڈرائنگ روم میں سجالی لیکن جب دونوں کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہوا تو اس اختلاف رائے نے ’’ دشمنی‘‘ کی شکل اختیار کر لی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے چوہدری ظہور الہی کو کوہلو میں مروانے کی کوشش کی پھر چوہدری ظہور الہی ٰنے ذوالفقار علی بھٹو سے دشمنی ان کو تختہ دار پر لٹکانے تک نبھائی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے چوہدری ظہور الہیٰ کو کوہلو کی جیل میں ڈال کر مروانے کا منصوبہ بنایا تو بہادر بلوچ اکبر بگٹی نے چوہدری ظہور الہی تک ذوالفقار علی بھٹو کے ’’سکواڈ‘‘ کو رسائی نہ دی اور چوہدری ظہور الہیٰ شہید کی حفاظت اپنے خاندان کے ایک فرد کی طرح کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو نواب احمد خان کے مقدمہ قتل پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ چوہدری ظہور الہیٰ جنرل ضیاالحق کی کابینہ کے رکن تھے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کی توثیق کی تھی ۔ کہا جاتا ہے جس قلم سے جنرل ضیا ء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے حکم پر دستخط کئے تھے وہ چوہدری ظہور الہیٰ نے ان سے لیا تھا۔یہ قلم آج بھی چوہدری شجاعت حسین کے پاس محفوظ ہے لیکن وہ اس بارے میں لا علمی کا اظہار کرتے ہیں۔ گجرات کے چوہدری اپنے دشمن کو نہیں بھلاتے۔ وہ کار آج بھی چوہدری خاندان کے پاس گجرات میں محفوظ ہے جسے الذولفقار کے دہشت گردوں نے کلاشنکوف کی گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا۔ مجھے یاد ہے محترمہ بے نظیر بھٹو ’’ سیاسی دشمنی ‘‘ختم کرنے کے لئے ظہور پیلس گجرات آنا چاہتی تھیں جہاں چوہدری شجاعت حسین نے ان کے سر پر چادر پہنانی تھی لیکن چوہدری ظہور الہی شہید کی صاحبزادیاں ’’سیاسی صلح‘‘ کی راہ میں حائل ہو گئیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا’’ ظہور پیلس ‘‘میں استقبال کی تقریب منسوخ کر دی گئی ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا اعزاز چوہدری ظہور الہی کو جاتا ہے یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ (یو ڈی ایف) کے سربراہی اجلاس 99ویسٹریج۔ راولپنڈی میں منعقد ہوتے تھے۔ 99ویسٹریج میرے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ جہاں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں کا عینی شاہد ہوں ۔ چوہدری ظہور الہی پارلیمنٹ کی جان تھے۔ جب وہ پارلیمنٹ ہائوس میں قدم رکھتے رونقیں لگ جاتی تھیں 99ویسٹریج راولپنڈی کو ’’مہمان خانہ‘‘ کی حیثیت حاصل ہو گئی ۔ ذوالفقار علی بھٹو سے دشمنی نے چوہدری ظہور الہی کو جنرل ضیاء الحق کے قریب کر دیا۔ چوہدری ظہور الہی ملکی سیاست میں ایک صاف ستھرے کردار کے مالک تھے۔ ان کی بہادری اور جرأت کی داستانیں سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے جس دور میں اپوزیشن کی سیاست کی ہے اس میں حکومت کی مخالفت پر سیاسی رہنمائوں کو ’’سر ‘‘ کی قیمت ادا کرنا پڑتی یا پھر طویل عرصہ تک جیل میں ڈال دئیے جاتے۔ آج کے دور میںاپوزیشن کے رہنمائوں کے ’’سر ‘‘ تو نہیں لئے جاتے لیکن ان پر ’’کرپشن‘‘ کا الزام لگا کر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ اگرچہ جو طرز تکلم اختیار کیا جاتا ہے ، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اختیار کرتے تو ان کو ’’ نشان عبرت ‘‘ بنا دیا جاتا۔ سیاست بڑا بے رحم کھیل ہے۔ گجرات کے چوہدری برادران نے ’’نواز شریف دشمنی ‘‘ میں اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کر دیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت جائن کر لی۔میاں نواز شریف کی جانب سے جاتی امرا میں چوہدری برادران کے اعزاز میں دئیے جانے والے ظہرانہ کی منسوخی ان کی سیاست میں ’’ٹرننگ پوائنٹ ‘‘ بن گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے چوہدری ظہور الہی کی دعوت میں عین وقت پر گجرات آنے سے معذرت کر لی جس کے بعد ان کے ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ایسے فاصلے پیدا ہوئے جو زندگی بھر ختم نہ ہو سکے ۔ میں نے ان سے کم و بیش 40سالوں پر مبنی دوستی میں کبھی غصے میں نہیں دیکھا میں نے ان کو شریف خاندان سے شدید اختلافات کے با وجود ہمیشہ ان کے بارے مثبت انداز میں گفتگو کرتے دیکھا ہے۔ چوہدری پرویز الہی جیسا ’’ صحافی دوست‘‘ سیاست دان بھی کم ہی دیکھا ہے ، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں پنجاب ہائوسنگ فائونڈیشن قائم کر کے بلا امتیاز راولپنڈی ، لاہور اور ملتان کے پریس کلبوں کے ارکان کو سر چھپانے کی جگہ دی۔ چوہدری پرویز الہیٰ جسے اپنا دوست بناتے پھر وہ اس کو کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتے۔ وہ نواز شریف سے دوستی رکھنے والے اخبار نویس دوستوں سے برملا اپنی ’’ناراضی‘‘ اظہار کر دیتے ۔12اکتوبر1999ء کے ’’پرویزی مارشل لائ‘‘ میں ماڈل ٹائون لاہور میں شریف خاندان کی خواتین نے اپنی گرفتاری کا خطرہ محسوس کیا تو انہوں نے روزنامہ نوائے وقت کے معمار جناب مجید نظامی کی رہائش گاہ پر پنا ہ لے لی۔ جب چوہدری شجاعت حسین کو معلوم ہوا تو وہ انہیں لینے کے لئے جناب مجید نظامی کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے اور یہ کہہ کر اپنے گھر لے گئے ’’ دیکھتے ہیں ہمار ی ان مائوں بہنوںاور بیٹیوں کو کون گرفتا ر کرتا ہے ؟‘‘ میاںنواز شریف کی گرفتاری کے ابتدائی ایام میں بیگم کلثوم نواز کی اسلام آباد آمد پر چوہدری برادران کی رہائش گاہ ان کے لئے خالی کر دی جاتی تھی۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے’’ جبر ‘‘ نے دونوں خاندانوں کے درمیان ایسے فاصلے پیدا کئے جو ختم ہونے کو نہیں ہے ۔ مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق) پچھلے 15،16سال سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں 25جولائی2018ء کے انتخابات نے چوہدری برادران کو پاکستان تحریک انصاف کے قریب کر دیا ۔ آج وفاق اور پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومتیں پاکستان مسلم لیگ(ق) کی بیساکھیوں پر قائم ہیں چوہدری برادران نہ چاہتے ہوئے بھی ’’نواز شریف دشمنی ‘‘ میں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ چوہدری ظہور الہیٰ ایک غریب پرور سیاست دان تھے غریب آدمی کی مدد کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے ۔ چوہدری برادران کو پنجاب کی یونیورسٹی میں ان کی چیئر بنوانی چاہیے اورسیاسات کے طالبعلموںکو ان پر ڈاکٹریٹ کرنے کی ترغیب دینی چاہیے ۔ شہرہ آفاق عوامی شاعر حبیب جالب نے چوہدری ظہور الہی کو منظوم خراج تحسین پیش کیا تھا
؎ آبرو پنجاب کی تو،شان پاکستان کی
پیار کرتی ہے تجھے دھرتی بلوچستان کی
سندھ کی دھڑکن ہے تو ،سرحد کی تو آوازہے
تیرے دل میں قدر ہے ہر اک جری انسان کی
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن