موٹروے رِنگ روڈ پر حالیہ درندگی کا روح فرسا واقعہ ہماری گِرتی ہوئی اخلاقیات اور انتظامی گرفت نیز ڈوبتے ہوئے نظامِ انصاف کی عکاسی کرتا ہے۔بدقسمتی سے قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان کے مختلف اداروں کو تجرباتی لیبارٹری بنا دیا گیا ہے۔ ہر آنے والا دن اپنے اندر ایک نئی سِسکی اور ہچکی لے کر طلوع ہوتا ہے۔معصوم زینب، بلبلاتی بسمہ، گندگی کے ڈھیر پر پڑی فروا کی لاشیں اور رِنگ روڈ پر جنسی درندگی کا شکار خاتون کی چیخیں میڈیا ہائپ کی وجہ سے ہمارے اجتماعی ضمیر کو کچھ دیر کے لئے تو جھنجھوڑتی ہیں لیکن گذرتے وقت کے ساتھ ایسے اندوہناک واقعات دم توڑتے نظر آتے ہیں۔اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نظامِ انصاف کا پہلا ادارہ پولیس سٹیشن اگر مضبوط ہوتا اور ہماری پولیس مختلف وردیوں، ناموں کے بغیر ایک نام سے منظم اور تربیت یافتہ ہوتی اور ہم مجرمان کو قانون کی گرفت میں جکڑ سکتے تو اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہوتا۔دورِ رفتہ میں انگریزوں نے پولیس کی تنظیم تین مرحلوں پر منظم کی اور اسی پولیس کے نظام کی وجہ سے لوگ آج بھی بکری اور شیر کو ایک گھاٹ پر پانی پینے کے قصے سناتے نظر آتے ہیں۔ انگریز کے تیار کردہ اس نظام میں پولیس کا پہلا طبقہ کانسٹیبل سے شروع ہو کر انسپکٹر تک پہنچتا تھا۔ دوسرا طبقہ ASI سے لے کر SP تک جاتا تھا جبکہ کمانڈنگ رول PSP افسران کے پاس تھا۔اس نظام کے نتائج اگر بہت بہتر نہ سہی تو اتنے پریشان کن بھی نہ تھے جتنے آج نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ کانسٹیبل سے لے کر ASI سب انسپکٹر، ٹریفک سارجنٹ اور ڈائریکٹ بھرتی انسپکٹرز اور PSP انسپکٹرز نے پولیس کے موجودہ سسٹم کو مچھلی منڈی میں تبدیل کر دیا ہے۔
موجودہ پولیس کے تربیتی نظام میں خامیوں کی وجہ سے یہ محکمہ پیشہ وارانہ طور پر مکمل طور پر مفلوج نظر آرہا ہے کیونکہ تھانے کی سطح پر نہ ہی تو بڑھتے ہوئے جرائم پر گرفت ہے اور نہ ہی ان میں تعینات افسران اور ماتحت لوگ اپنے کام میں مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مقدمات کا غلط اندراج، ناقص تفتیش، مجرمان کی سزایابی کی شرح کو صفر پر لے آئی ہے۔پہلے کسی دور میں افسران کی کارکردگی اُن کی تفتیش کے نتیجے میں مجرمان کو ملنے والی سزا سے منسلک کی جاتی تھی۔ جو آج نظر نہیں آتی۔ جس کے نتیجے میں ملزمان کی جلد ضمانتیں، عدالتوں سے بریت اس طرح کے شرمناک واقعات کے بار بار وقوع پذیر ہونے سے ہمارے نظامِ انصاف کا منہ چڑاتی نظر آتی ہے۔کسی بھی واقعہ کے رونما ہونے کے بعد کانسٹیبل سے لے کر IG تک اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کرتے ہوئے اُس کی مختلف توجیہات پیش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور CCPO لاہور محمد عمر شیخ صاحب کی طرف سے متاثرہ خاتون کو کسی نہ کسی طرح اس واقعہ کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔ہر سینئر آفیسر پولیس نفری کی کمی، وسائل کی عدم دستیابی کی بات تو کرتا ہے لیکن دستیاب وسائل اور بجٹ کے بے رحمانہ استعمال کی بات نہیں کرتا۔ اگر صرف سرکاری خزانے سے کاسٹ آف انویسٹیگیشن پر ملنے والی رقم کا درست استعمال کیا جائے تو مقدمات کے متاثرہ فریق سے تفتیشی اخراجات کے لئے لی جانے والی رشوت کی شکایات ختم نہ سہی کم ضرور ہو سکتی ہیں۔پولیس کو پروفیشنل اور عوام دوست بنانے کا کام اتنا مشکل نہیں ہے کیونکہ PTI کے ہی خیبر پختونخواہ کے دورِ اقتدار کے دوران سابق آئی جی ناصر خان درّانی نے اپنے پیشہ وارانہ مہارت سے اعلیٰ کام کر دکھایا۔ پولیس کے نظام میں یہ تبدیلی اُس صوبے میں نظر آئی جو بیرونی سازشوں، دہشت گردی کی پناہ گاہوں اور تخریب کار گروہوں کی آماج گاہ تھا۔اس IG کے دور میں پولیس کی تنظیم اور تربیت اس طرح کی گئی کہ سپاہی سے لے کر اعلیٰ افسران تک اپنے کام، انتظام اور حاصل کردہ نتائج کی وجہ سے لائقِ تحسین ٹھہرے۔ صوبہ پنجاب میں بھی اسی تجربے کو دھرانے کے لئے جب انہیں لایا گیا تو انہیں سیاسی اور انتظامی سطح پر وہ پذیرائی نہ مل سکی۔ نتیجتاً انہوں نے اس کام کو آگے بڑھانے میں اظہارِ معذرت کیا۔پنجاب کی پولیس ایڈمنسٹریشن میں ہر سطح پر گروہ بندی ہے نیز نچلے طبقے کے جوانوں اور افسران میں بددلی اور مایوسی کسی آنے والے طوفان کا پتہ دیتی ہے۔ نچلے طبقے کے ملازمین اور افسران میں پائے جانے والے اضطراب اور عدم تحفظ کو حکمت، تدبر اور دانائی سے نہ سنبھالا گیا تو رہا سہا نظام بھی بیٹھ جائے گا۔اس مسئلے کا اس کے علاوہ کوئی حل نظر نہیں آتا کہ انسپکٹر اور نچلی سطح تک کے تمام افسران کے عرصہ تعیناتی کا تعین کر کے اُن کی کارکردگی کو پرفارمنس آڈٹ کے ذریعے جانچا اور پرکھا جائے۔ تھانوں کی سطح پر معمولی نوعیت کے تنازعات کے حل کے لئے جسٹس آف پیس کی تقرری کو یقینی بنایا جائے تاکہ پولیس صحیح معنوں میں جرائم پر گرفت کے عمل کو موثر بنا سکے اور عدالتوں پر کام کا بوجھ کم اور جیلوں میں قید ملزمان کی تعداد میں کمی واقع ہو۔ پولیس افسران کی تعیناتی میں سیاسی مداخلت کے عمل کی حوصلہ شکنی ہو۔ یہ اصلاحِ احوال کے لئے ایک موثر قدم ثابت ہوگا۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ قیامِ پاکستان سے آج تک سیاستدانوں نے ہر سطح پر پولیس اور پٹواری کو اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے استعمال کیا۔ پولیس میں من مانے افراد کی بھرتی، پسندیدہ جگہوں پر اُن کی تقرری اور تعیناتی اپنے مخالفین کو دبانے اور کچلنے کے لئے اُن کا بے رحمانہ استعمال بڑی تیزی کے ساتھ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کاش بھرتی کا معیار پولیس قوانین کے مطابق ہو۔