انتخابی اصلاحات،اپوزیشن کے اختلافات ،کمیٹی کے قیام میں مشکلات حائل

 لاہور (فاخر ملک) انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کے قیام سے قبل اپوزیشن جماعتوں کے مابین اختلاف نے کمیٹی کے قیام میں مشکلات کھڑی کر دی ہیں جس سے خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ اس اہم ایشو پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہو جائے گا۔ تاہم کمیٹی بن بھی گئی تو اتفاق رائے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس کی وجہ فریقین کا ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان بتایا گیا ہے۔ جبکہ جن نکات پر اتفاق رائے ہوا تھا اس بارے میں بھی اپوزیشن جماعتوں میں ابہام پیدا ہو گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت العلمائے اسلام کے مابین رابطوں کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ جمعیت العلمائے اسلام کا دوٹوک موقف ہے کہ  پی  ڈی  ایم کے آخری اجلاس کے فیصلہ کے مطابق  حکومت کے ساتھ کسی بھی مسئلہ پر مذاکرات نہیں ہونگے۔ اپوزیشن کے مطابق اس کی وجہ  ماضی میں حکومتی نمائندوںکا  اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے بعد تضحیک آمیز رویہ تھا۔ اس کے پیش نظر حکومت کے ساتھ مذاکرات بے معنی ہیں۔ جے یو آئی کے  اس موقف کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل کئی دوسری جماعتوں کی بھی  حمایت حاصل ہے۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق  دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے تحفظات دور کرنے، بعض یقین دہانیوں اور طے شدہ عملی اقدامات کے بعد ہی انتخابی حکمت عملی کے لیے مشترکہ کمیٹی کے قیام پر رضامندی ظاہر کی تھی جنہیں پی ڈی ایم میں شامل بعض جماعتوں نے ویٹو کر دیا ہے۔ ان  ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے اندر پی ڈی ایم کے اندر توڑ پھوڑ کے خدشہ کے پیش نظر مشاورت شروع ہو گئی ہے کہ اس صورتحال میں اسے مذاکراتی میز پر بیٹھنا بھی چاہئے یا نہیں۔ جبکہ  نواز شریف سے رہنمائی لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور ابتدائی ردعمل میں پارٹی قائد نے مولانا فضل الرحمان کے موقف کی تائید کی ہے۔ تاہم پارٹی جو بھی پوزیشن لے گی اس کا اعلان آئندہ 48گھنٹوں میں متوقع ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پس منظر میں ہونے والی کوششوں کے نتیجہ  میں  انتخابی اصلاحات کی مشترکہ کمیٹی کے قیام کے لیے اتفاق رائے ہوا تھا اور اتفاق رائے کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ بیٹھ کر ہونے والے فیصلہ میں جمعیت العلمائے اسلام کی نمائندہ موجود تھیں۔

ای پیپر دی نیشن