تجزیہ محمد اکرم چودھری
امریکی صدر جو بائیڈن بھارت سے تعلقات کے معاملے پر باراک اوباما والی غلطی دہرا رہے ہیں۔ امریکی صدر نریندرا مودی کی طرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں جب کہ ناصرف بھارت میں ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے عام شہریوں کے لیے زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے بلکہ اہم سیاست دان بھی اس تعصب سے محفوظ نہیں ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی نریندرا مودی اور ان کی جماعت کی تعصب سے بھری پالیسیوں کے اثرات امریکہ میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ مسلمانوں کے قاتل، سکھوں کے حقوق غصب کرنے والے نریندرا مودی کے امریکہ پہنچنے پر سکھ کمیونٹی نے احتجاج کیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ میں موجود ہیں۔ نریندر مودی واشنگٹن کے جس ہوٹل میں قیام پذیر ہیں اس کے باہر سکھ کمیونٹی نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت میں بسنے والے سکھوں اور ماضی میں سکھوں پر ہونے والے مظالم پر انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ مظاہرین نے خالصتان کے پرچم بھی لہرائے۔ یاد رہے کہ امریکہ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کی طرف جھکا ہوا ہے اور اس سلسلے میں وہ بھارت کے تمام غیر انسانی اقدامات کو بھی نظر انداز کر رہا ہے۔ بھارت میں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر امریکہ کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ امریکی رکن کانگریس اینڈی لیون نے بھارت میں جمہوری اقدار کے احترام پر زور دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ گزشتہ دنوں نئی دہلی میں انتہاپسند تنظیم ہندوسینا کے کارکنوں نے اسدالدین اویسی کے سرکاری گھرپر توڑپھوڑ کی تھی۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی جارحیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہاں رکن پارلیمنٹ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ گذشتہ دنوں آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کی رہائش گاہ پر انتہاپسند تنظیم ہندوسینا کے غنڈوں نے حملہ کر کے توڑ پھوڑ بھی کی ہے۔اسدالدین اویسی کہتے ہیں کہ لوگوں کو شدت پسند بنانیکی ذمہ داری بی جے پی پرعائد ہوتی ہے۔ ایک رکن پارلیمنٹ کے گھر حملہ اور توڑ پھوڑ ہوتی ہے تو اس سے کیا پیغام جاتا ہے۔ بھارت میں یہ سیاسی حالات ہیں اور ہندو انتہا پسندوں کے حوصلے اس حد تک بلند ہو چکے ہیں وہ رکن پارلیمنٹ کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کمزور افراد کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہو گا۔ دنیا کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اگر انکھیں بند کیے رکھیں تو یقیناً کسی بھی بڑے نقصان کی ذمہ داری ان پر بھی عائد ہو گی۔