سیاستدان اور ناقابل اعتبار روئیے 

 ہمارے ہاں سیاست اور سیاستدان ایسے روئیے اور تضادات کی بنیاد رکھتے رہے کہ لفظ سیاست اور سیاستدان ناقابل اعتبار شمار ہونے لگا ہے۔ہیں روز اول سے ہر جماعت نے سیاسی منشور میں دلفریب وعدوں کا ایجنڈا تو رکھا لیکن عملی جامہ نہ پہنایا گیا وعدوں اوروعید کا سلسلہ روٹی کپڑا مکان سے شروع ہوا اور غربت کے خاتمے بیروزگاری کا خاتمہ خوشحال پاکستان اور نئے پاکستان تک جا پہنچا لیکن نہ تو غربت کا خاتمہ ہوا نہ روزگار ملا نہ چھت ملی نہ سائبان ملا سلاطین دہلی کے ایک فرمانروا سے ایک وزیر باتدبیر نے پوچھاکہ حکمران کس وجہ سے عوام کی نظر میں قابل اعتبار نہیں رہتے اس کا جواب وزیر کو کچھ یوں ملا کہ حکمران وقت نے اسے قید کروادیا جہاں وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگیا سلطان جلال الدین خلجی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ اس نے اپنے وزیر باتدبیر سے پوچھا کہ مجھے تین اصول بتاؤ کے میں وہ کا م کروں تو رعایا خوش ہو وزیر نے کہا بیت المال کا درست استعمال رعایا کی خبر گیری اور بدعنوان عناصر کی پکڑ اسوقت تو حکمران طیش میں آگیا اور وزیر سے کہا کہ وہ کل آئے اب ساری رات وزیر نے روکر گزاری کہ بادشاہ اسے نجانے کیا سزا دے چنانچہ اگلے دن جلال الدین خلجی نے کہا کہ تم نے حق اور سچ بات کی ہے اور اسے انعامات سے نوازا ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے روز اؤل سے سیاست کی کھیتی میں تھوہر کے بیج بوئے تو مستقبل میں ہرے بھرے درخت نہیں مل سکتے نوشیرواں عادل ایک جگہ سے گزرا اس نے دیکھا کہ ایک شخص آم کا پودا لگا رہا نوشیرواں نے کہا کہ جب تک یہ پھل دے گا تم دنیا میں نہیں رہوگے اس نے کہا ہمارے بڑوں نے پودا لگایا ہم نے پھل کھایا اب ہم لگائیں گے تو آنے والے لوگ کھائیں ہم نے یہ روایت نہیں ڈالی اس لیے خودغرضی اور ذاتی مفادات کے جنگل ہر سو پھیل گئے ایک سیاسی راہنما سے پوچھا گیا کہ سیاسی اور غیر سیاسی کلچر میں کیا فرق ہے تو وہ بولا سیاسی کلچر کا فروغ تو ہماری حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے اور غیر سیاسی کلچر کیا ہے جب ان سے سوال کیا تو بولے جی سب پچھلی حکومتوں کا شاخسانہ ہے جنہوں نے جمہوریت کو پٹڑی پر چڑھنے نہ دیا اور یوں ساری ذمہ داری پچھلی حکومتوں پر ڈال دی جاتی ہے ہر آنے والی حکومت عوام سے وعدے کرتی ہے ان کے آتے ہی دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی اور ملک ترقی کے منازل طے کرتا چلاجائیگا مگر وہی ڈھاک کے تین پات جلد ہی آنے والی حکومت کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ کہ گھی سیدھی انگلیوں سے نکلنے والا نہیں معاملات اتنے زیادہ غیر متوازن اور اُلجھے ہوئے ہیں کہ ان کے لئے عمر خضر دولت قارون اور صبر ایوبؑ چاہئے اور اس طرح سب دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور یہاں سے اعتبار اور بے اعتباری کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور غیر یقینی کی صورتحال جنم لیتی ہے ایک کہاوت ہے کہ ایک لومڑی بدحواسی کے عالم میں بھاگی جارہی تھی کہ کسی نے پوچھا کہ تیرے ساتھ کیا معاملہ ہے اس نے کہا کہ میں نے سنا ہے اونٹوں کو بیگار کے سلسلہ میں پکڑا جارہا ہے تیرا اونٹ سے کیا تعلق جب پوچھا گیا تو وہ بولی اگر کوئی دشمنی میں کہہ دے کہ میں اونٹ ہوں اور پکڑی جاؤں تو میرا کیا ہوگا ہم نے کبھی اپنی کوتاہیوں پر دھیان نہیں دیا عوام کے مسائل سے لاتعلقی ہی وہ محرک ہے جو غیریقینی اور بے اعتباری کو جنم دیتا ہے کارل مارکس بھی اسی نظریے کا قائل ہے ہم ہمیشہ نجات دھندہ کے منتظر رہے یہی وجہ ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اور جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے بعد بھی ہم کسی اقبال یا جناح جیسے رہنما کے منتظر ہیں جو ہمیں راستہ دکھائے اور ہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نجات دھندہ تو ہمارے اندر چھپا ہوا ہے بس تلاش کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...