’’ سرکاری زبان اُردو ! ‘‘
معزز قارئین ستمبر 2015ء کو چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب کی سربراہی میں سپیشل بنچ میں اُردوؔ کو سرکاری زبان قرار دینے سے متعلق کیس کی سماعت ہُوئی تو، چیف جسٹس صاحب نے فوری طور پر اُردوؔ کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا حکم دِیا ۔ اُنہوں نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ ’’ اُردوؔ ہماری قومی زبان ہے ، اِس حکم نامے کو فوری طور پر نافذ کِیا جائے ! ‘‘۔
جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب نے اپنا فیصلہ بھی اُردو ؔ میں پڑھ کر سُنایا تھا۔چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب سپریم کورٹ آف پاکستان کے پہلے چیف جسٹس ہیں کہ ’’ جنہوں نے اپنے عہدے کا حلف اُردو ؔ زبان میں اُٹھایا تھا ! ‘‘۔
اُن دِنوں میاں نواز شریف وزیراعظم تھے ، پھر یکم اگست 2017ء سے 31 مئی 2018ء تک شاہد خاقان عباسی وزیراعظم رہے اور 18 اگست 2018ء سے اب تک وزیراعظم جناب عمران خان ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال صاحب نے ، جسٹس سیّد منصور علی شاہ صاحب اور جسٹس محمد علی مظہر صاحب پر مشتمل تین رُکنی بنچ کے سربراہ کی حیثیت سے وفاق میں انگریزیؔ کے بجائے اُردوؔ زبان کو سرکاری طور پر رائج نہ کرنے پر اور حکومت پنجاب کی پنجاب میں پنجابیؔ زبان نافذ نہ کرنے پر جو جواب طلبی کا کیا ہوگا؟ ‘‘۔
’’ چیف جسٹس صاحبان ! ‘‘
معزز قارئین !"Wikipedia" کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان ، گلزار احمد صاحب یکم فروری 2022ء کو ریٹائر ہو جائیں گے ، اور 2 فروری 2022ء کو جسٹس عمر عطا بندیال صاحب چیف جسٹس ہوں گے اور 16 ستمبر 2023ء کو ریٹائر ہو ں گے ! گویا پاکستان کی قومی زبان اُردوؔ کو سرکاری زبان کا درجہ ملنے کے لئے تقریباً 2 سال مل رہے ہیں ۔ شاید پنجابی زبان اور پاکستان کی دوسری علاقائی زبانوں (مادری زبانوں ) کو بھی اپنے اپنے علاقوں میں یہ شرف حاصل ہوگا ؟
20 ستمبر 2021ء کو چونکہ جسٹس عمر عطا بندیال صاحب کی سربراہی میں تین رُکنی بنچ نے وفاق سے قومی زبان اُردو اور حکومت پنجاب سے پنجابی زبان ہی کے بارے جواب طلب کِیا ہے ۔ اِس لئے مجھے تو یقین ہے کہ ’’ دُنیا بھر میں میری دونوں پیاری زبانیں قومی زبان اردوؔاور میری مادری زبان پنجابیؔ بھی سلامت ہی رہیں گی !‘‘ ۔
’’ اُردو پنجابی بولنے والے غرباء ! ‘‘
معزز قارئین ! شایدانگریزی بولنے والوں کو، اُمراء اور اُردوؔ اور پنجابی بولنے والوں کو غرباء سمجھ کر ہی علاّمہ اقبال نے اپنی نظم ’’ جواب شکوہ‘‘ میں فرمایا کہ …
اُمرا نشۂ دولت میں ہیں ، غافل ہم سے!
زندہ ہے ملّت بیضاء غرباء کے دَم سے ! ‘‘
…O…
یعنی ’’ اسلام کا جو کچھ بھی باقی ہے ، وہ غریبوں میں پایا جاتا ہے ۔ ملّت بیضاء اُنہی کے دم سے ہے ۔ اِس کے برعکس امیروںکی حالت دیکھو، وہ دولت کے نشے میں ہم سے بالکل غافل ہو چکے ہیں ! ‘‘ ۔
’’ مدنی سرکاری دِیاں گلیاں ! ‘‘
مَیں 26 نومبر 1936ء کو مشرقی ( اب بھارتی) پنجاب کی سکھ ریاست نابھہ میں پیدا ہُوا تھا۔ جنوری 1947ء ( 12 ربیع الاوّل کو) میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان اور میرے دونوں چچا رانا فتح محمد چوہان اور رانا عطا محمد چوہان عید میلاد اُلنبی کے جلوس میں لے گئے تھے ۔ مَیں نے دیکھا اور سنا کہ ’’ جلوس میں نعت خوان پنجابی زبان کی ایک نعت بار بار پڑھ رہے تھے جس کا مطلع تھا…
سارے جگ تو نِرالیاں دِسدیاں نیں!
مدنی سرکار دِیاں گلیاں !
…O…
معزز قارئین ! اُس نعت ِ رسولِ ؐمقبول کا مطلع آج بھی میرے دِلوں دماغ پر چھایا ہُوا ہے۔ ہجرت کے بعد ہمارا خاندان پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا ۔ مَیں دسویں جماعت میں تھا جب میرے والد صاحب مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جانے لگے ۔
مَیں نے کئی بار نعت خوانوں کو یہ نعت پڑھتے ہُوئے دیکھا اور سُنا لیکن، جب مَیں نے میٹرک کے بعد 1956ء میں پہلی نعت لکھی تو وہ اُردو زبان میں تھی۔
مَیں نے1960ء میں مسلک صحافت اختیار کِیا جب مَیںگورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی اے فائنل کا طالبعلم تھا ۔ سرگودھا میں میرے والد صاحب کی کتابوں کی دکان تھی ، وہاں اُن کے ’’ بزرگ دوستوں ‘‘ چودھری نذیر حسین صاحب نے مجھے فارسیؔ پڑھائی اور بابا قاسم منیار دوپہر کے کھانے کے بعد ہم سب کو پنجابی صوفی شاعروں کا کلام سُنایا کرتے تھے ۔ پھر مَیں اُردو ؔاور پنجابی ؔکا شاعر بنتا گیا ۔ صحافی کی حیثیت سے اُردو میرا ذریعہ روزگاربنتی گئی تو ، میری ایک نظم کا مطلع تھا …
پنجابی ماؔں بولی میری ، مَیں صدقے ، مَیں ،واری!
پر اُردو ؔ، میری دائی اماّں، میری پالن ہاؔری ! ‘‘
…O…
1973ء میں جب مَیں اپنے روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور کے ایڈیٹر اور مختلف قومی اخبارات ، خاص طور پر روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے غیر ملکی دوروں پر جانے لگا تو مَیں نے کہا کہ …
’’ ماں بولی، پنجابی ؔمیری، قومی زبان اے اُردو ؔ!
جدوں وطن توں ، باہر جاواں ، میری پچھان اؔے اُردوؔ!‘‘
…O…
جنوری2021ء کے آغاز میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل (Antonio Guterres) صاحب نے اپنے پیغام میں ہماری قومی زبان اردوؔ کا ترجمہ پیش کِیا تو اِس ’’ خوش خبر ‘‘ (Good News) کے بعد مَیں نے کہا کہ …
’’ ماں بولی، پنجابی ؔمیری، قومی زبان اے اُردو ؔ!
اقوام متحدہ ؔوِچ وِی ، میری پچھان ؔاے اُردو ؔ!‘‘
… O…
معزز قارئین ! یہ میری زندگی کا حاصل ہے کہ ’’ ستمبر 1991ء میں ، صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن اور ’’نوائے وقت ‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے مجھے سعودی عرب کے دورے پر خانہ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہُوئی ۔ یقیناً اِس کا ثواب جنابِ مجید نظامی کو بھی ملا ہوگا ؟
سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے کی طرف سے مجھے میرے تین صحافی دوستوں کے ساتھ سفارتخانے کی گاڑی میں ’’ مدنی سرکار دِیاں گلیاں ‘‘ دیکھنے کا موقع ملا اور پھر اُردو پنجابی میں کئی نعت ہائے رسول ؐ مقبول اور آئمہ اطہار ؓ و اولیائے کرام کی منقبتیں لکھنے کا شرف بھی حاصل ہُوا۔
………………(جاری ہے)