سب سے پہلے تو یہ کہ ملک کے آئین سے کوئی بھی بالاتر نہیں‘ کسی بھی سیاست دان کو ایسا بیان ہرگز ہرگز نہیں دینا چاہیے جو ملکی سلامتی کیخلاف ہو۔ ہمیں ”مفاداتی“ سیاست سے نکلنا ہوگا۔ مفاداتی اور ”ذاتی“ سیاست نے 75سال میں ملک کا جو حال کر رکھا ہے سب کے سامنے ہے۔ ملک و قوم کی خاطر آگے بڑھنا ہوگا۔ آئین کی پاسداری کرنا ہوگی۔ ”مفاداتی“ سیاست کا ہی یہ ثمر ہے کہ آج 75سال بعد بھی ہم دوسرے ممالک اور آئی ایم ایف سے قرضے مانگ رہے ہیں۔ ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ قرضے ملنے پر ہم جشن مناتے ہیں۔ خوشیاں مناتے ہیں۔ شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ دو پارٹیوں نے باری باری تقریباً 30سال تک ملک پر حکومت کی۔ اُس وقت یہ ایک دوسرے کےخلاف تھے۔ انکی تقاریر وغیرہ سب کے سامنے ہیں۔ ملک کے باسیوں کیلئے انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا پھر ایک تیسری پارٹی سیاست میں آگئی۔ جس کا مقابلہ الگ الگ ان کیلئے کرنا مشکل تھا دونوں سابقہ بڑی پارٹیاں اپنے اپنے ”مفادات“ کی خاطر ایک ہوگئی ہیں بلکہ ملک کی تمام جماعتیں تیسری پارٹی کے مدمقابل ہیں۔ تعصب اس حد تک ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل ساری جماعتیں پی ٹی آئی کو سیاسی پارٹی تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ عمران خاں کے ساتھ سیاست دانوں جیسا سلوک نہ کیا جائے کیوں کہ وہ سیاست دان نہیں ہے۔ خواجہ آصف کاکہنا ہے کہ ہم اسکے خلاف کارروائی کرنے جارہے ہیں۔ اب عوام عمران خاں کے جلسوں میں کافی نظر آتے ہیں۔ عمران خاں کا ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت بھی ”کرونا“ کے باوجودعوام کیلئے بہتر رہا ہے۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ انصاف ہر کسی کے ساتھ کیا جائے۔ ایک اگر جرم کرے تو اُس کا نوٹس بھی نہ لیا جائے۔ دوسرا اگر وہی کرے تو اُسے پکڑا جائے تو ناانصافی کسی بھی مہذب معاشرے‘ قوم کیلئے تباہ کن ہوتی ہے۔ ن لیگ نے گذشتہ دورِ حکومت میں جنرل مشرف پر آرٹیکل 6لگانے کیلئے خصوصی عدالت بھی بنائی مگر جنرل مشرف خصوصی عدالت میں جانے کی بجائے سی ایم ایچ چلے گئے تھے۔ تو جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ بھی نہ ملا۔ ہم نے تب بھی لکھا تھا کہ صرف مشرف نہیں سابقہ جرنیلوں کی قبروں کا بھی ٹرائل کیا جائے۔ جس جس نے بھی آئین سے کھلواڑ کیا۔ آئین کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہو۔ فوج کے خلاف عمران خاں یا شہباز گِل یا کوئی بھی بات کرے اُسکے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے۔ فوج منظم ادارہ ہے اور ملکی سلامتی کا ضامن ہے مگر جس نے بھی فوج یا عدلیہ کے خلاف زبان درازی کی ہے چاہے زرداری ہو خواجہ آصف ہو، نواز شریف مریم نواز یا کوئی بھی ہو ایک بار سب کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ بخدا یہ باب ہمیشہ کیلئے بند ہوجائیگا۔ توشہ خانہ کا کیس عمران خان کا ضرور کھولا جائے مگر زرداری، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف سمیت سب کے کیس ایک ہی وقت میں سُنے جائیں۔ فارن فنڈنگ میں بھی ایک پارٹی کو نشانہ نہ بنایا جائے سب کے بارے الیکشن کمشن بلاتاخیر کارروائی کرے اور انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ تب یہ انصاف بھی کہلائے گا اور ہر کوئی اِسے تسلیم بھی کرےگا۔ یہاں بات ہو توشہ خانہ کی، فارن فنڈنگ یا اداروں کو ڈرانے دھمکانے کا مسئلہ ہو تو سب سیاسی پارٹیاں اس حمام میں ننگی ہیں۔عمران خان ہوں، فواد چودھری ہو یا کوئی بھی لیڈر یا کسی بھی ادارے کا سربراہ ہو قانون سے بالاتر نہیں ہے اور جب تک یہ سب قانون کا احترام نہیں کرینگے بخدا ملک ترقی نہیں کرسکے گا۔ یہ ”ناانصافیاں“ ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ ایک ڈکٹیٹر کے خلاف آرٹیکل 6لگانے کی بات ہو اور دوسروں کو چھوڑ دیا جائے۔ ایک سیاسی لیڈر کے بارے توشہ خانہ کا مقدمہ بنایا جائے اور دوسروں کو معاف کردیا جائے۔ فارن فنڈنگ میں صرف ایک پارٹی کو ہی نشانہ بنایا جائے دیگر کا نوٹس بھی نہ لیا جائے۔ اداروں کیخلاف تضحیک آمیز زبان کے استعمال کی بات ہو اداروں کو ڈرانے دھمکانے کی بات ہو تو ایک پارٹی کو ہی نشانہ بنایا جائے۔ باقی سب کو معاف کردیا جائے یہ سراسر ظلم و ناانصافی اور زیادتی ہے۔ قانون سب کیلئے برابر ہے۔ ایک ہی پلڑے میں اگر سب کو تولا جائے۔ بلاتفریق انصاف ہو بخدا ہمارے سارے مسائل کا حل اسی میں پوشیدہ ہے۔ اسلام جوکہ دین فطرت ہے اُسکے بھی یہی احکامات ہیں۔ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ سب کے ساتھ مساوی سلوک ہو۔