پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی پولیس کلچر میں مثبت تبدیلی 

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی پولیس کلچر میں تبدیلی کا استعارہ ہے۔ترجمان توصیف صبیح گوندل متحرک،کام سے لگن،محنتی ،ذمہ داری کا احساس رکھنے والے افسر ہیں۔امجد صاحب امریکہ سے لاہور 15 برس بعد آئے۔ وہ جگہ جگہ لگے کیمروںکو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور ہم سے دریافت کیا بھئی کیا یہ چلتے بھی ہیں اور شہر بھر کی مانیٹرنگ ہوتی ہے۔ میں نے ان کو اس وقت صرف ہاں میں جواب دیا اور اپنے ایک دوست کی وساطت سے سیف سٹیز اتھارٹی کے دفتر لے گیا۔ ہمارے اس دوست کی وجہ سے ہمیںخاصا پروٹوکول ملا اور ترجمان افسر نے خوب آﺅبھگت کی۔ ان کوجب یہ بتایا کہ ہمارے یہ دوست ولایت سے آئے ہیںاور پاکستان میںاس نظام کی ترقی کو دیکھ کربہت حیران ہیں۔ تو اس پر ترجمان آفیسر نے بڑی بڑی سکرینوں کو دکھایا۔ اس پر تولگ بھگ پورا شہر ہی نظر آرہا تھا۔امجد صاحب دنگ رہ گئے اور فی البدیہہ بولے بھائی واہ واہ بھئی واہ! ہمارا ملک اب ترقی کی راہ پر ہے اورحکومت کے ایسے پراجیکٹس تو مجرموں کا سراغ اور جرم کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے معاون ہیں۔مجھے یہ سب دیکھ کر تو یہ لگ ہی نہیں رہا کہ واقعی یہ ہمارا پاکستان ہی ہے۔
امجد صاحب کی باتیں فرضی ضرور ہیںپر دوستو سیف سٹی اتھارٹی شہر بھر میں اپنا کردار ادا کررہی ہے اوراس کے محنتی آفیسرز بھی لوگوں کے مسائل حل کرنے میں شعبہ جات کے ساتھ شانہ بشانہ کام کررہے ہیں۔ سائنس آف پولیسنگ کوجدید خطوط پر استوار کرنے اور عام آدمی کوتحفظ کا احساس دینے کیلئے پولیس کلچر میں تبدیلی تحریک انصاف کی حکومت کے ایجنڈے میں اولین حیثیت رکھتی ہے۔ اس دیرینہ وعدے اور وقت کی اہم ضرورت کوپنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کی صورت میں شرمندہ تعبیر کیاگیا۔ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی قومی سلامتی کا تاریخ ساز منصوبہ ہے جوکیمروں کی مدد سے انسداد دہشت گردی،ٹریفک مینجمنٹ، کوئیک رسپانس اور انٹیگریٹڈ نظام کاشاہکار ہے،
سیف سٹیز پراجیکٹ کے تحت لاہور میں تقریبا8 ہزار اور قصور میں500 کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔ ان کیمروں کی مانیٹرنگ کیلئے لاہور میں پنجاب پولیس انٹیگریٹڈ کمانڈ کنٹرول اینڈ کمیونیکشن سنٹر قائم کیاگیا ہے۔جہاں سرویلینس کیلئے ایشیا کی سب سے بڑی ویڈیو وال تعمیر کی گئی ہے جس پر پورا شہر مانیٹرکیاجارہا ہے۔ اس طرز پر ایک مانیٹرنگ سینٹر قصور ڈی پی او آفس میں بھی قائم کیاگیا جو 24 گھنٹے ایکٹو سرویلنس اور پولیس کی رہنمائی میں مصروف عمل ہے۔ سیف سٹیز پراجیکٹ کے تمام کیمرے نائٹ وڑن ٹیکنالوجی کے حامل ہیں جو دن اور رات میں موثر سرویلنس میں معاون ہیں۔سیف سٹیز جدید ترین 4.5 جی ایل ٹی ای ایڈوانس سسٹم کے ذریعے کمیونیکیشن سرانجام دے رہی ہے۔ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی میں روزانہ کی بنیاد پر 30سے40 پولیس انویسٹی گیشن افسران ویڈیو شہادت کے حصول کیلئے آتے ہیں۔جن کومطلوبہ ویڈیو شہادت کے بغیر کسی فیس یا سفارش کے فراہم کی جاتی ہے،
پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کا جدید پولیس یونیفائیڈ کمیونیکشن اینڈ رسپانس پکار15 سسٹم پنجاب بھر کی ایمرجنسی15 کالز لاہور سنٹرمیں موصول کررہا ہے۔ پکار15 پر پنجاب کے35 اضلاع اور لاہور سے کل ملا کر اب تک60 ملین سے زائد کالز موصول کی جاچکی ہیں۔ یہ اپنی طرز کا منفرد سسٹم ہے۔پنجاب بھرکے پولیس افسران اور تمام12 تھانے سیف پولیس نیٹ ورک کے تحت رابطے میں آگئے ہیں۔ اس سسٹم کے ذریعے آئی جی پنجاب،تمام آر پی اوز اور ڈی پی اوز کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر ایمرجنسی کال کے رسپانس کا جائزہ لیتے ہیں۔ لاہور میں ٹریفک قوانین پرعمل درآمد یقینی بنانے کیلئے ای چالان کا نظام متعارف کرایا گیا ہے۔جو لوگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں انکے گھر میں چالان بھجوا دیاجاتا ہے۔ ای چالان بھجواتے ہوئے یہ نہیںدیکھا جاتا کہ یہ شخص کتنا بااثر ہے۔ ادھر خلاف ورزی ہوئی اور ادھر چالان گھر پہنچ گیا جو ہر صورت دینا ہی ہوتا ہے۔ خواتین معاشرے کا اہم حصہ ہوتی ہیں۔پنجاب پولیس ویمن سیفٹی ایپ متعارف کرائی گئی ہے، اس ایپ کے ذریعے خواتین اپنے فون سے کسی بھی حادثے کا ناگہانی صورتحال پر صرف ایک کلک کے ذریعے فورا پولیس کو اطلاع دے سکتی ہیں، ویمن سیفٹی ایپ میں چیٹ کا آپشن بھی شامل کیاگیا ہے۔اسکے ذریعے خواتین کال نہ کرسکنے کی صورت میں بذریعہ چیٹ اپنا مسئلہ بتاسکتی ہیںجس پر فوری رسپانس کیاجاتا ہے۔اب تک ایک لاکھ70 سے زائد خواتین ویمن سیفٹی ایپ کو انسٹال کرچکی ہیں اور درجنوں خواتین کومدد فراہم کی جاچکی ہے۔
لاہور ڈویژن کی تکمیل کے بعد پنجاب میںدیگر 8 ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں اسی طرز کے پراجیکٹس لگائے جارہے ہیںجن میں فیصل آباد، راولپنڈی، بہاولپور، ملتان، گوجرانوالہ، ڈی جی خان ، سرگودھا اورساہیوال شامل ہیں۔سیف سٹیز اتھارٹی بلاشبہ ماڈرن پولیسنگ کاشاہکار اور پولیس کلچر میں تبدیلی کااستعارہ ہے جسے پاکستان بھرمیںفعال کرنا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...