تخلیق اور اظہر جاوید کی یادیں

Sep 25, 2022

اداس رتوں میں لوگوں کے مورال کو ڈاﺅن کر دینے والی سیاست کی فضا میں اور بے فیض راہنماﺅں کی پالیسیوں اور ا پنے مفادات کی قلابازیوں کے باعث گلا دبادینے والی مہنگائی کے ماحول میں وہ جریدے غنیمت ہیں جو اس شعر کی تفسیر بنے رہتے ہیں کہ۔
 وہ برگ سبز ہوں میں جو اداس رت میں بھی 
 چمن کے چہرے پہ رونق بحال رکھتا ہے 
اظہر جاوید کے بعد سونان اظہر جاوید کے ادبی جریدہ تخلیق کو بلا شبہ اردو دنیا کے ایسے گنتی کے چند جریدوں میں شمار کیا جا سکتا ہے جنہوں نے لوگوں کے چہروں پر موجودہ حالات میں بھی رونق بحال رکھی ہوئی ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ اظہر جاوید کے دور میں تخلیق کی اشاعت کے دوران بعض اوقات دو یا تین شمارے ایک ساتھ بھی شائع کرنے کی نوبت آ جاتی تھی لیکن انکے نسبتا خوشحال فرزند سونان کے دور ادارت میں تمام تر مالی پریشر کے باوجودملکی اور بیرون ملک کے بعض تخلیق نواز دوستوں کے تعاون سے نہ صرف ہر شمارہ باقاعدگی سے الگ الگ شائع ہو رہا ہے بلکہ ادب میں اہم کردار ادا کرنے والوں کیلئے ایوارڈ دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔تخلیق کا معیار بھی مثالی ہے اس میں لکھنے والوں کا تعلق بھی بر صغیر سے باہر تک یعنی امریکہ ، آسٹریلیا، برطانیہ اور دوسرے ممالک کے اردو سے محبت کرنے والے لکھاریوںسے جڑا ہوا ہے۔ تازہ شمار ے کو چمکانے والے ڈاکٹر مبارک علی ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا محمود شام ڈاکٹر قرة العین طاہرہ پروفیسر سعادت سعید انور شعور سرفراز سید حسین مجروح خالد اقبال یاسر ایوب خاور ڈاکٹر طاہرہ اقبال ڈاکٹر اشفاق ا حمد ورک پیروز بخت قاضی غلام حسین ساجد ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم اور اسی طرح بہت سے سینئر اور اپنی جگہ پر اہمیت رکھنے والے قلم کاروں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تخلیق کا سفر اپنے بانی کے دور کے قد سے نیچے نہیں آیا بلکہ کئی حوالوں سے بہتری آئی ہے۔ حال میں ادب نواز اور دوستوں کے دوست خوبصورت شاعر اور استاد اختر شمار کےلئے ایک گوشہ مختص کرنے کے ساتھ توشہ خاص کے طور پر اظہر جاوید کے افسانوں کے مجموعہ کے ترجمہ کے حوالے سے جو مضامین شامل کئے گئے ہیں و ہ سچ مچ ایک تحفہ سے کم نہیں ہیں ۔ پنجابی میں لکھے گئے افسانوں کے اس مجموعے کو جھنگ کے من موہنے لکھاری حنیف باوا نے اردو کے قالب میں اس طرح ڈھا لا ہے کہ تمام پڑھنے والوں نے اسے ترجمے کے حق ادا کر دینے کے الفاظ سے یاد کیا ہے ۔ان افسانوں میں ایک کونج جیسی چیخ ان واقعات کی بھی ہے جس کا مشاہدہ میں نے خود کیا ہے صر ف ایک واقعہ مشتے از خروارے ۔ مجھے ذاتی طور پر محبی اظہر جاوید کے ساتھ بہت وقت گزارنے کا موقع ملا میں اپنے دفتر سے اٹھتا تو اکثر راستے میں موجود اظہر جاوید کے دفتر سے ہوتا ہوا گھر کی راہ لیتا اور وہ اپنے ایک شاعر طبیب دوست ڈاکٹر تبسم رضوانی کے ہاں طبی مشاورت کیلئے ریواز گارڈن آتے تو ساتھ ہی میرے دفترسے ہوتے ہوئے واپس جاتے ۔ پھر زندگی کے ایک نازک موڑ پر جب احمد ندیم قاسمی نے بعض دوستوں کے غلط مشور ہ پر جناب اظہر جاویدکے خلاف ہتک عزت کا کیس کیا اور برسوں سے ایک طرف عقیدت اور دوسری طرف محبت کا برسوں کا سلسلہ نازک مرحلے میں داخل ہوا تو لاہور میں ادبی حلقے دو واضح حصوں میں تقسیم ہونے لگے تو میں نے اپنے فرنٹ میں عدالتی کاروائی چھاپنا شروع کی۔اس میں احتیاط بھی برتی جاتی تھی اور الگ سے تبصروں میں یہ کوشش ہوتی کہ کسی طرح ادب کی ان دونوں محترم ہستیوں میں مفاہمت ہو جائے اور باہمی احترام اور پیار کا رشتہ بحال ہوجائے۔ انہی دنوں میں تخلیق کے سابق پرنٹر نے عدالتی کاروائی کے پس منظر میں تخلیق کو چھاپنے سے انکارکر دیا اور پرنٹر کے طورپر اپنا ڈیکلیئریشن واپس لینے کا اعلان کیا تو اظہر جاوید بہت پریشان ہوئے ۔ اس وقت لاہور میں کسی پرنٹنگ پریس کا مالک تخلیق کے پرنٹر کے طور پر فارم بھرنے کے لئے تیار نہ تھا ۔ محبی اظہر جاوید نے مجھے فون پر آگاہ کیا ۔ میں نے فون رکھا اور انہیں کچھ بتائے بغیر فورا پرنٹر کا خالی فارم حاصل کر کے اس پر اپنی مہر ثبت کی دستخط کئے اور دفتر تخلیق پہنچا ۔ اظہر جاوید سمجھے کہ میں معمول کے مطابق ملنے آیا ہوں ۔ چہرے سے پریشان دکھائی دئے ۔ میں نے لفافہ ان کے سامنے رکھتے ہوئے جب کہا کہ اس میں فارم ہے اسے اب خود پر کرلیجے ۔ اس وقت میرے دوست کا چہر ہ دیدنی تھا ۔ ان کی پریشانی ختم ہو چکی تھی ۔ ان کی آنکھوں مں نمی صاف نظر آ رہی تھی ۔ کہنے لگے یار میں نے امتحان کی گھڑی میں بہت دوستوں کو فون کیئے لیکن جناب احمد ندیم قاسمی کو مقابل دیکھ کر سب خاموش ہو جاتے تھے ۔ جب میں نے یہ بتایا کہ میں نے جناب احمد ندیم قاسمی سے بھی بات کی ہے اور وہ آپ سے تمام تر ناراضگی کے باوجود کہہ رہے تھے کہ میں نے کسی پرنٹر کو نہیں روکا کہ وہ تخلیق کو نہ چھاپیں اور یہ کہ اچھی بات ہے کہ آپ نے فارم پر کیا ہے تو اظہر جاوید اور خوش ہوئے ۔ میں نے اس لئے بھی جناب احمد ندیم قاسمی سے بات کی تھی کہ اس سے عدالتی معاملے میں مفاہمت کی کوئی راہ نکلے اور دوسرا سبب یہ تھا کہ بہت سال پہلے اکادمی ادبیات کے ایک اجتماع اوراس کے پس منظر میں نوائے وقت کے ادبی ایڈیشن میں میری طرف سے دی گئی ایک خبر کے باعث جناب ندیم صاحب نے میرے حوالے سے تمام قومی اخبارات کو ناراضگی کے خط لکھے تھے ۔ یہ ایک الگ داستان ہے اور اس کا تذکرہ پھر کبھی سہی ۔ اس وقت اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ تخلیق میں توشہ خاص کے عنوان سے جو نگارشات شامل کی گئی ہیں ان کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنے کا حسن کیا ہوتا ہے۔ خاص طور پر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے علامتوں کے ساتھ اور جملوں کی ساخت کے ذریعے جس طرح جناب اظہر جاوید کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کا خاکہ بیان کیا ہے اس سے آج کے اد ب کے اور کسی حدتک صحافت کے طلبہ اور طالبات بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔

مزیدخبریں