سفر زندگی کا استعارہ

رب بزرگ و برتر نے کائنات کی تشکیل کی کہ وہ پہچانا جائے۔سیارے اور ستارے،چانداور سورج پیدا کئے،ان کو ایک خاص سمت میں حرکت دی،ان کی اسی حرکت سے موسموں نے جنم لیا،دن رات پیدا ہوئے۔ کائنات میں تغیرات اسی حرکت یا سفر کی بدولت ہیں۔سفر کا سب سے قیمتی عنصراس کی حرکت ہے اور زندگی بذاتِ خود ایک مسلسل حرکت کا نام ہے،اس لئے سفر بھی زندگی کا استعارہ ہے۔زندگی ایک ایسا سفر ہے جو ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔قرآن کی تمثیلی مگر حقیقی کہانیاں سب سے ارفع کہانیاں ہیں اور ان کہانیوں کا مرکز بھی سفر ہی ہے۔انسان کا پہلا سفر احکام خداوندی کی خلاف کاسفر کھلے پانیوں ورزی کی بنا پر وقوع پذیر ہوا جب،،سیروفی الارض،، کا حکم ربی نافذ ہوا تو تجربات نے سفر کو وسیلہ ظفرقرار دیا۔جیسا کہ میں نے کہا قرآن کی تمثیلی مگر حقیقی کہانیاں سفر پر مبنی ہیں، اس سلسلے میں قرآن حکیم کی ان کہانیوں پر ایک نظرڈالی جائے تو سفر اور حیاتیات میں ایک تعلق نظر آتا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کا سفر کھلے پانیوں کاسفر تھا جب سیل عظیم نے بنی نوع انسان پر پانی کی وسیع تر چادر ڈال دی تو سفر نوح نے ہی سلسلہ حیات کا تسلسل برقرار رکھا۔ حضرت موسیٰ کو دنیا میں آتے ہی سفر درپیش آ گیا، ان کی والدہ نے انہیں فرعون کے ظالمانہ عمل سے بچانے کیلئے لکڑی کے ایک تابوت میں بند کیا اور دریائے نیل کے سیل رواں پر رکھ دیا اور یہ سفر فرعون کے محلات میں اختتام پذیر ہوا۔حضرت یوسف علیہ السلام نے کنعان سے مصر تک کا سفر اپنے سوتیلے بھائیوں کی ستم رانی کی بنا پر کرنا پڑا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خشکی کا سفر اختیار کیا، اللہ کا گھر تعمیر کیا اور آج بھی اور ابد تک یہ مقدس مقام اپنی عبدیت کے اعتراف کیلئے سفر کا مرکز ہے۔ یہ تمام سفر اپنی جگہ، لیکن مسلمانان عالم کیلئے سب سے زیادہ اہمیت ان سفروں کی ہے جو رسول خدا نے اللہ کے حکم سے کئے۔ ان کا پہلا سفر تجارتی مقاصد کےلئے تھا، مکہ سے مدینہ کا سفر سیاسی نوعیت کا تھا۔ مدنیہ سے مکہ کا سفر ایک فاتح کا سفر تھا۔واقعہ معراج کے روحانی سفر میں اللہ نے اپنے بندے کو تمام خلائی حدود پار کراتے ہوئے اپنے دیدار کیلئے بلایا اورحضور نے ایسے مقامات، معلیٰ کی سیاحت کی جہاں پہنچتے ہوئے فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں۔ دنیاوی معاملات میں شعورانسانی کی بدولت 2700 قبل مسیح میں جب پہیہ ایجاد ہوا تو سفر میں آسانی کاساماں ہوا اور زمینی فاصلے محدود ہو گئے۔ڈاکٹر تارا چند نے تمدن ہند پراسلامی اثرات میں لکھا ہے کہ چھٹی صدی قبل مسیح تاریخ عالم کے حیرتناک ادوار میں شمار ہوتی ہے، اس صدی میں ایک ملک سے دوسرے ملک میں خیالات کی ترسیل کا سلسلہ براہ راست جاری تھا اور چین سے لے کر مصر،روم اور یونان تک اثرات پہنچتے تھے۔ ان خیالات کا مرکز تمدن کاگہوارہ بغداد تھا۔
سفرنامہ،سفر کے تاثرات،حالات۔کوائف اور مشاہدے پر مستمل ہوتا ہے۔ فنی اعتبار سے سفرنامہ وہ بیانیہ تحریر ہے جس میں سیاح اپنے سفر کے دوران یا سفر کے اختتام پر اپنے مشاہدے، دورانِ سفر اپنی کیفیات کے احوال قلم بند کرتا ہے، سیاح کی آنکھ جتنی باریک بیں ہوگی سفرنامہ اتنا ہی جذبات سے بھرپور اور معلوماتی ہو گا۔ داستان اور مکالمہ کے استعمال کی آمیزش سے لکھا جانے والا سفرنامہ قاری کی توجہ خود میں سموئے رکھتا ہے۔ طلسم ہوشربا، داستان اور سفرنامے کی درمیانی شکل ہے۔موجودہ دور میں مستنصر حسین تارڑ نے اپنے سفرناموں میں معلومات کو داستان کا حصہ بنا کر پیش کیا ہے جو اپنی روانی اور کہانی پن کی بنا پر خوشگوار تاثر کا باعث بنتا ہے، میرا سفرنامہ ،، حرمین کی گلیوں میں،، مکالماتی تکنیک کی مثال ہے۔
بات شروع ہوئی تھی سلمیٰ اعوان کے سفرناموں کےلئے لیکن تمہید کچھ زیادہ لمبی ہو گئی۔ سلمیٰ اعوان کے اب تک 10 سفرنامے شائع ہو چکے ہیں،تیرے افق بے حدودو بے قیود،،ان کا دسواں سفرنامہ ہے،یہ سفر نامہ ان تحریروں میں شمار کیا جا سکتا ہے جہاں سیاح اور ادیب ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔
موجودہ سفرنامہ دراصل 3 سفرناموں کا مجموعہ ہے۔ اس میں ایک مختصر سا سفرنامہ ،، میرا طواف ِ زیارت و حج،،ہے جو سفرِ حج طواف وداع میں برپاہونے والی قلبی کیفیات کا محتصر بیان ہے۔ دوسرا سفرنامہ ،،سفرِ اسپین ہے اور تیسرا سفر ازبکستان ہے جو پہلے سفرنامے کی طرح مختصر ہے۔ بنیادی طور پر یہ سفرنامہ سفرنامِ اسپین ہے،اس سفر نامے میں سلمیٰ اعوان میڈرڈ، غرناطہ، اندلس ژ کی سیر اس طرح کراتی ہیں کہ ان کا سفرنامہ مناظر کی تصویر بناتے ہوئے افسانے کا اسرار لئے ہوئے ہے۔انکے سفرناموں کا بیانیہ سادہ اور تکنیک افسانوی ہے۔ انکے اس دو آتشہ اسلوب نے کہیں بھی انکے قاری کو اِدھر اُدھر نظر اُٹھانے کی فرصت نہیں دی۔ایک سیاح کی حیثیت سے سلمیٰ اعوان کو نئی زمینوں اور نئی تہذیبوں سے واسطہ پڑتا ہے،سفرنامہ لکھنے کے عمل سے وہ اپنی شخصیت کا ظاہری عکس اور باطنی پرت نکھارنے کی سعی کرتی ہیں۔ ملک کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے سفرنامے، روس کے سفرنامے، عراق، ترکی، شام، اٹلی، سیلون کے سفرناموں سے سلمیٰ اعوان کا یہی عکس نظر آتا ہے جو سرسید کی وضاحت لئے ہوئے ہے،شبلی نعمانی کی خطابت کا انداز اور مولانا محمد حسین آزادکی جمال آفرینی کے تناظر میں افسانے کا اسرار لئے ہوئے ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...