گورننس ٹھیک کریں ،تبدیلی آجائے گی

پاکستان تحریک انصاف کے دور میں پاک امریکہ تعلقات اسقدر سرد مہری کا شکار رہے کہ لاکھ کوششوں کے باوجود امریکی صدر نے عمران خان کی کال اٹینڈ نہیں کی اور ملاقات سے بھی گریز کیا حالانکہ انہی کے دور حکومت میں سی پیک منصوبہ متنازعہ ہوا ،کام روک دیا گیا جس کیوجہ سے چین کے ساتھ تعلقات میں بھی کشیدگی دیکھی گئی لیکن اتنا سب کرنے کے باوجود امریکہ کی طرف سے گرمجوشی دیکھنے کو نہیں ملی اور خان صاحب یہی کہتے دکھائی دئیے کہ امریکی صدر نے فون نہیں کیا وہ مصروف شخصیت ہیں جبکہ دوسری طرف دعوی تھا کہ مغربی دنیا ان کی حکومتی حکمت عملیوں کو فالو کرتی ہے۔ کاغذ کی ناﺅ کہاں ہمیشہ چلتی ہے۔
 مکافات عمل کی چکی چلی تو جناب کو سمجھ آیا کہ سیاست اور کھیل کے میدان میں فرق ہوتا ہے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ صفر کار کردگی کے ساتھ عوام میں جانامشکل تھا تومذہب اور وطن سے جذباتی وابستگی رکھنے والے نوجوانان ملت کے لیے امریکہ مخالف سازشی بیانیہ گھڑااور اپنی سیاسی کشتی کو ڈوبنے سے بچا لیا مگر نئے حکومتی سیٹ اپ کے لیے یہ ایک چیلنج تھا کہ کیا مستقبل قریب میں پاک امریکہ تعلقات بہتر ہوسکیں گے یا پاکستان کو خان صاحب کے جھوٹے سیاسی بیانیے کی بڑی قیمت چکانا ہوگی؟
ریاستی ادارے اس سوچ میں گم تھے اور تحریک انصاف کے قائدین بیک ڈور رابطے بحال کرنے میں مصروف تھے جس کا انکشاف امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے خیبر پختونخواہ دورے سے ہوا اور پھر 36 گاڑیوں کا امریکی تحفہ جس نیازمندی سے قبول کیا گیا اس نے غلامی بیانیے”ہم کوئی غلام ہیں ؟“ کی دھجیاں اڑا دیں اور سب پر کھل گیا کہ پی ٹی آئی قائدین دوہرے معیار کو لیکر چل رہے ہیں۔
بظاہر دھمکاتے ہیں جبکہ بادی النظر میں سبھی کے پاﺅں پکڑ رہے ہیں کہ ”ایک موقع دے دیں “اور ہمارے علاوہ کسی پر اعتبار نہ کریں کیونکہ ماضی کے سبھی حکمران مبینہ کرپشن میں ملوث ہیں۔ ایسے میں اقوام عالم کے رویے بارے کچھ بھی کہنا ناممکن تھا لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کی امریکی صدر جوبائیڈن سے خوشگوار ملاقات کی خبروں سے پاک امریکہ تعلقات پر چھائی دھند چھٹ گئی ہے۔ امریکی صدر نے پاکستان میں سیلاب سے سینکڑوں جانوں کے نقصان پر افسوس اور مدد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جو کہ یقینا پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے اگر قومی و ملکی مفاد میں ہو۔۔لیکن ابھی چین کے خدشات کو دور کرنا اور عالمی برادری میں کھوئی ساکھ بحال کرنے سمیت بہت کچھ کرنا باقی ہے جیساکہ وزیراعظم پاکستان نے اجلاس سے خطاب میں قدرتی آفات سے ہونے والی تباہیوںکے علاوہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ہے ۔
 پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کلیدی کردار کون ادا کرتا ہے یہ الگ بحث ہے لیکن تحریک انصاف کے دور میںخارجہ پالیسی کی بد ترین مثال دیکھنے کو ملی کہ بھارت اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کرنے کے باوجود سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بن گیااور ہمارا وزیر خارجہ دم درود ہی کرتا رہ گیا۔ایسے میں تشویش بجا تھی پھر ہم وہ ملک ہیں کہ جس کے حکمران افرادی قوت کے ذریعے موجود ہ قدرتی وسائل کو بہترین منصوبہ بندیوں کے ذریعے استعمال میں لا کر ملک و ملت کی حالت سنوارنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ شاہانہ طرز حیات میں جیتے ہیں اور گلے میں کشکول لٹکائے گھومتے ہیں اور یہی سننے کو ملتا ہے کہ پچھلی حکومت نے ملک کو دیوالیہ کر دیا ہے اس لئے آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر معیشت کو سنبھالا نہیں مل سکتا۔
 یقینا یہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ تجربہ کار معاشی ماہرین کی جگہ تقریری ٹانک بیچنے والے ملتے ہیں جو وقت ٹپاﺅ حکمت عملیوں کے ذریعے مدت اقتدار گزار تے ہیںاور کچھ نیا نہیں کرتے! بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ عوام کے لیے جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ حتی کہ امداد اور قرضے بھی عوامی مشکلات کو کم نہیں کر سکے کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے ایسی شرائط پر امداد لی ہے جس میں عام آدمی کے لیے کسی بھی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ہے بلکہ جو تھوڑا بہت آٹے و دیگر چند چیزوں میں دیا جارہا تھا وہ بھی ختم کیاجا رہا ہے۔
دوسری طرف پارلیمینٹیرینز کو موٹرویز کے ٹول ٹیکس تک معاف کر دیے گئے ہیں اور باقی اللوں تللوں کا کوئی حساب ہی نہیں ہے ۔۔کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ :
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی 
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں 
 بہر حال عوام کو سفارتی کامیابی نہیں روٹی چاہیے اوربھیک سے حالات نہیں بدلتے بلکہ گداگری کی آمدن ملکی و قومی وقار پر سوالیہ نشان ہوتی ہے۔ اسلئے دوراندیشی کا تقاضا ہے کہ حاصل وسائل کو استعمال میں لا کر مسائل حل کئے جائیں اورایسی دور رس حکمت عملیاں اختیار کی جائیں جس سے ڈیلیور ہو کیونکہ تحریک انصاف کی تین سالہ بدترین کار کردگی بھی میاں شہباز شریف کے گلے پڑ گئی ہے۔ 
رہی سہی کسر نالائق معاشی ٹیم نے پوری کر دی ہے اورگڈ گورننس کا فقدان کھل کر سامنے آچکا ہے جبکہ برسر اقتدار اور برسر پیکار اپنی تشہیر و تقریر کے لیے خرید و فروخت میں مصروف ہیں ۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ پھر بھی عوام سبھی کے جلسوں میں جوق در جوق چلے آتے ہیں کیونکہ شخصیت پرستی نہیں چھوڑتے۔ یقینا حکمرانوں کی بے حسی اور ظالمانہ پالیسیوں کے ذمہ دار کسی حد تک عوام بھی ہیںشاید یہی وجہ ہے کہ آج مبصرین ہی نہیں ان کے ہم نوا بھی سر جوڑے سوچ رہے ہیں کہ کیا واقعی پاکستان ایسے حالات سے گزر رہا ہے کہ خان صاحب کے کہنے پر چند روز تک پورا ملک بند ہو جائے گا جبکہ سب کوپتہ ہے کہ جناب حقیقی آزادی کی نہیں اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔۔بالفرض ایسا ہوگیا تو اس بندش سے متاثر کون ہوگا ؟ نقصان کس کا ہوگا ؟جبکہ فائدہ تو دور دور تک کسی کا ہوتا نظر نہیں آرہا۔کہتے ہیں کہ جب فیل بانی عام ہوجائے تو چیونٹیوں کے کچلے جانے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔یہ بات طے ہے کہ گڈ گورننس کے فقدان اور نا تجربہ کار افراد کی ناقص حکمت عملیوں نے ملکی حالات کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔ اگر گڈگورننس فراہم کی جاتی تو کبھی ایسے حالات نہ ہوتے اور نہ ہم اقوام عالم میں تماشا بنتے۔

ای پیپر دی نیشن