انٹرویوز کی ایک قسم تو وہ ہے جس میں کسی شعبے کے کسی نمایاں فرد کے بارے میں معلومات حاصل کر کے ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامعین و ناظرین تک پہنچائی جاتی ہیں۔ اس میں کیا کچھ ہوتا ہے؟ یہ معلومات کن مراحل سے گزر کر حتمی شکل اختیار کرتی ہیں؟ ان میں حقائق کتنے ہوتے ہیں اور مبالغہ آمیزی کتنی ہوتی ہے؟ یہ میرا آج کا موضوع نہیں۔ انٹرویوز کی ایک اور قسم ہے جس سے ہمیں کثرت سے واسطہ پڑتا ہے یعنی اسامیوں کو پُر کرنے کے لیے امیدواروں سے سوال جواب کا سلسلہ۔ کبھی میں نے بھی بطور امیدوار کئی انٹرویوز دیے اور پھر درجنوں بار انٹرویوز لیے بھی۔ اب عمر کے اس آخری حِصے میں بھی انٹرویوز سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہوں اس لیے انٹرویوز کے قِصے ’خواہی نخواہی‘ میرے کانوں میں پڑتے رہتے ہیں۔ بڑھاپے میں انسان کے قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں۔ بظاہر صحت مند بوڑھے بھی ثقلِ سماعت کا شکار ہونے لگتے ہیں، اس کے باوجود اگر عزیز طلبہ کی انٹرویوز سے متعلق شکایات مجھ تک بھی پہنچ جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹی یا بڑی اسامیوں کو پُر کرنے کا طریقِ کار بنیادی تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔
میں نے تقریباً ساٹھ سال مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھایا ہے۔ انٹرویوز دینے اور لینے کے بہت سے نامناسب واقعات دیکھے بھی اور سنے بھی۔ حکومتیں ہمیشہ یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ہم تمام تقرریاں میرٹ پر ہوتی ہیں لیکن منتخب ہونے والوں کی کارکردگیاں ان دعووں کی تکذیب کرتی ہیں۔ میں اپنے تجربات اور مشاہدات کا آغاز یونیورسٹیوں میں ہونے والی تقرریوں سے کرتا ہوں۔ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد تعلیم و تحقیق میں پیش رفت ہے۔ باقی انتظامی معاملات ہیں جو اسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ مثلاً نظامِ امتحانات ہے جو یہ جانچنے کے لیے ہے کہ ڈگری کسی معیار کی ہے؟ یونیورسٹی کے مالی معاملات کو چلانے کے لیے ایک الگ محکمہ ہوتا ہے جو ایک خزانہ دار کے زیرِ انتظام کام کرتا ہے۔ انتظامی مسائل کا پورا نظام رجسٹرار چلاتا ہے۔ یعنی انتظامی، مالی اور امتحانی معاملات الگ الگ محکموں کے سپرد ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا الگ الگ سربراہ ہوتا ہے لیکن یونیورسٹی کے جملہ تعلیمی اور انتظامی امور کا ذمہ دار وائس چانسلر ہوتا ہے۔ وائس چانسلر جتنا اچھا ہو گا یونیورسٹی کا مجموعی نظام اور کارکردگی بھی اتنی ہی اچھی ہو گی۔
کسی زمانے میں وائس چانسلر کا تقرر صوبے کا گورنر کرتا تھا، اس کو یہ اختیار آئین کے تحت دیا گیا تھا۔ گورنر کسی سیاسی پارٹی کی بجائے ریاست کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا چنانچہ اس زمانے میں وائس چانسلر کا عہدہ خالی ہوتے ہی اس پر کسی جانے پہچانے شخص کا تقرر کر دیا جاتا تھا۔ ایسے افراد عموماً تجربہ کار ماہرینِ تعلیم ہوتے تھے۔ تقرر کے لیے اگر کسی اور محکمے کی طرف رجوع کیا جاتا تھا تو یہ خدمت ہائی کورٹ کے کسی ریٹائرڈ جج کے سپرد کی جاتی تھی۔ پھر یہ کام بھی نذرِ سیاست ہو گیا۔ بیوروکریٹ وائس چانسلر آئے، پھر جرنیل بھی وارد ہونے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یونیورسٹیوں کا مجموعی معیار زوال کا شکار ہو گیا۔ پھر یونیورسٹیوں کے نظام کو بہتر بنانے کے نام پر ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) تشکیل دی گئی۔ پھر وفاقی ایچ ای سی کے بعد صوبائی ایچ ای سی بھی بنا دی گئی۔ وائس چانسلر کو منتخب کرنے کا کام سرچ کمیٹیوں کے سپرد ہوا اور تقرر کے لیے پریس میں اشتہار دیے جانے لگے۔ اہلیت کے لیے کچھ شرائط طے کی گئیں جن میں کچھ رد و بدل بھی ’حسبِ ضرورت‘ ہوتا رہا۔ بلامبالغہ ایک ایک سو خواہش مندوں کی درخواستیں آ جاتیں۔ پھر ’موزوں امیدواروں‘ کی چھانٹی کر کے ایک مختصر لسٹ بنائی جاتی۔ یہ مختصر لسٹ بھی اتنی مختصر نہیں ہوتی تھی۔ ان کے انٹرویوز کیے جاتے۔ انٹرویوز کے بعد تین نام تقرر کے لیے اربابِ اختیار کو بھجوائے جاتے اور ان میں سے برسرِ اقتدار حکومت کسی ’موزوں شخص‘ کو چار سال کے لیے کرسی پر بٹھا دیتی۔ یہ طریقِ کار اب تقریباً بیس سال سے جاری ہے۔
یونیورسٹیوں کے معاملات سے تعلق یا لگا¶ رکھنے والوں کی بہت بڑی اکثریت کی یہی رائے ہے کہ اس سے معاملات میں کسی طرح کا سدھار نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے اس میں کچھ استثنائی مثالیں مل جائیں تاہم بگاڑ اتنا نمایاں ہے کہ یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے اکثر افراد شاکی نظر آتے ہیں۔ ان سرچ کمیٹیوں کے چھانٹے ہوئے اکثر جواہر ریزے خزف ریزے ہی ثابت ہوتے ہیں۔ تدریس اور تحقیق دونوں کا حال ناگفتہ بہ ہے۔ اکثر استاد کسی نہ کسی بہانے کلاس میں نہیں جاتے یا پورا وقت نہیں دیتے یا لیکچر تیار نہیں کرتے۔ ایچ ای سی کے منظور شدہ رسائل میں جس قسم کے تحقیقی مقالات شائع کیے جاتے ہیں وہ نقل در نقل کی بہترین مثالیں ہیں۔ یوں تو اشاعتِ مقالات کے لیے مدیر ہیں، نائب مدیر ہیں، قومی اور بین الاقوامی مجالسِ مشاورت ہیں مگر یہ سب رسمی باتیں ہیں۔ مجلسِ مشاورت کے کسی رکن سے کبھی رائے نہیں لی جاتی، اور یہ سارا دھندا وائس چانسلروں کی سرکردگی میں اور ایچ ای سی کی سربراہی میں دن رات جاری ہے۔
مختصر انٹرویوز ہوں یا طویل، ان کے ذریعے کسی موزوں وائس چانسلر کا انتخاب ممکن ہی نہیں۔ کسی کے ماتھے پر لکھا ہوا نہیں ہوتا کہ وہ تعلیمی اور انتظامی امور چلانے کا اہل ہے یا نہیں۔ اس لیے سرچ کمیٹیوں کے منتخب کردہ وائس چانسلروں کی کارکردگی بھی ایسی ہی ہے۔ پرانا طریقہ اس لحاظ سے بہتر تھا کہ حکومت کے مشیر نسبتاً بہتر افراد کے نام تجویز کرتے تھے۔ مختلف اداروں سے ان کی اہلیت، دیانت اور نیک نامی کے بارے میں رپورٹس لی جاتی تھیں۔ اگرچہ اس طرح بھی اچھے یا برے ہر قسم کے لوگ آ جاتے تھے لیکن اچھے لوگوں کے تقرر کے امکانات ایک موزوں تناسب کی حد تک بڑھ جاتے تھے۔ بہت سے مناسب اور اہل لوگ درخواست دینے اور انٹرویو بورڈ کے سامنے پیش ہونے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور کبھی یہ راستہ اختیار نہیں کرتے۔ اس طرح ایچ ای سی نے بہت سے باصلاحیت لوگوں کا راستہ بند کر دیا ہے۔ (جاری)