ایثار راعی کی یادیں


محترم خواجہ محمد زکریا نے گزشتہ اتوار کو اپنے کالم میں جھنگ کے دو صحافیوں ایثار راعی اور بلال زبیری کا تذکرہ کیا جنھوں نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جھنگ جناب قدرت اللہ شہاب کی قربت حاصل کرلی تھی۔آج کا کالم انھی ایثار راعی کی یادیں تازہ کرنے کے لیے ہے۔ ایثار راعی نے صحافت کی ابتدا جھنگ سے کی اور پھر لائل پور (اب فیصل آباد) میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور پھر ملتان کو مسکن بنایا اور وہیں کے ہورہے ۔ ان سے میری ملاقات 1955ءمیں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقدہ ایک محفلِ مشاعرہ میں ہوئی ۔ دو چار مہینوں کے بعد مشاعرہ کی مجلس کا آراستہ کرنا ٹوبہ ٹیک سنگھ کی بعض شخصیتوں کا محبوب مشغلہ تھا۔ جس محفل مشاعرہ میں ایثار راعی سے تعارف ہوا اس میں میرِ مشاعرہ جناب ساغر صدیقی تھے جن کا کلام اور آواز دونوں مل کر مشاعرے کو لوٹ لیتے تھے۔
ایثار راعی کے جاننے والوں کو یہ پڑھ کر تعجب ہوگا کہ وہ شاعر بھی اچھے تھے اور پڑھتے بھی ترنم سے تھے ۔ ان کے اندر کا شاعر بعد میں ان کی صحافت میں ڈوب گیا۔ میرا ان سے زیادہ قریبی رابطہ اس وقت ہوا جب میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور چلا گیا اور روز نامہ ’آفاق‘ سے وابستگی اختیار کرلی ۔ ایثار راعی یہاں روزنامہ ’کوہستان‘ کے بیورو چیف تھے جو اس وقت کا ایک مقبول عام اخبار تھا جس کے چیف ایڈیٹر نسیم حجازی ، ایڈیٹر ابو صالح اصلاحی اور منیجنگ ایڈیٹر جناب عنایت اللہ تھے۔ مو¿خرالذکر کو وطن عزیز میں جدید صحافت کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ ایثار راعی اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مظاہرہ کے ساتھ ساتھ گفتگو سے دوسروں کو شیشے میں اتار نے کا فن خوب جانتے تھے۔ان کے اس ہنر سے ایک صاحب جو ایثار راعی کے قیامِ جھنگ کے دوران وہاں ڈپٹی کمشنر رہے ، بہت متاثر ہوئے اور یہ تھے جناب قدرت اللہ شہاب۔ ایثار راعی کی زندگی کے آنے والے دنوں میں قدرت اللہ شہاب ان کی زندگی میں اور ایثار راعی قدرت اللہ شہاب کی زندگی میں بہت دخیل رہے۔
عنایت اللہ صاحب کے ذہنِ رسا نے ملتان سے روز نامہ ’کوہستان‘ کے اجراءکا نقشہ بنایا، اس وقت ایثار راعی لائل پور چھوڑ کر ملتان جا چکے تھے ۔ پھر جب نسیم حجازی اور عنایت اللہ کے راستے جدا ہوئے تو ’کوہستان‘نسیم حجازی کے حصے میں آیا اور عنایت اللہ نے اخبار کی ایک نئی دنیا بسانے کے لیے تنکا تنکا جمع کرنا شروع کیا ۔ اس موقع پر ایثار راعی نے عنایت اللہ کا اخبار ’مشرق‘ جوائن کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ایثار راعی ملتان میں روز نامہ ’ مشرق‘ کے بیورو چیف مقرر کیے گئے۔ انھوں نے اپنا تن من دھن ’ مشرق‘ کے لیے وقف کردیا اور ’مشرق‘ لاہور سے چھپ کر ملتان میں فروخت ہونے والا سب سے بڑا اخبار بن گیا ۔ سنڈے میگزین بھی عنایت اللہ کی اختراع تھی ۔ جب ’مشرق‘ کے سنڈے میگزین کا آغاز ہوا تو ایثار راعی نے اس کے ٹائٹل کے اندرونی صفحہ پر جناب قدرت اللہ شہاب سے ایک طویل قسط وار انٹر ویو لینا اور شائع کرنا شروع کیا جو میری یاد داشت کے مطابق ایک سو سے زیادہ اقساط میں چھپا اور یہی انٹر ویو قدرت اللہ شہاب کی شہرہ¿ آفاق کتاب ’شہاب نامہ‘ کا حصہ بنا۔
شہاب صاحب ایک جدید تعلیم یافتہ اور روشن خیال بیورو کریٹ تھے۔ ان میں رو حانیت کب اور کیسے داخل ہوئی یہ بھی ایک پُر اسرار داستان ہے۔ انھوں نے ایثار راعی کے چھوٹے بھائی صدیق راعی کو اسلام آباد بلا یا اور نیشنل پریس ٹرسٹ میں ملازمت دلادی۔ صدیق راعی رفتہ رفتہ قدرت اللہ شہاب کے دل و دماغ پر محیط ہوتے چلے گئے۔ ادھر صدیق راعی تصوف وطریقت کی منزلیں تیزی سے طے کرنے لگے اور پھر ممتاز مفتی ، قدرت اللہ شہاب ، اشفاق احمد، یہ ایک حلقہ بن گیا جو تھے تو افسانہ نگار ، ناول نگار مگر ہوگئے صوفی اور بن گئے اللہ کے فضل سے اس کے محبوب بندے ! شہاب صاحب کی رحلت کے بعد صدیق راعی کا تو دل اسلام آباد سے اس قدر اچاٹ ہوا کہ بستر بوریا لپیٹ کر واپس اپنے آبائی گھر جھنگ آگئے۔
ایثار راعی بھی ایک عجب شخص تھا ۔ پہلے تو وہ مجھے اکساتا رہا کہ میں ملتان سے روز نامہ ’ جرا¿ت‘ کا ایڈیشن شائع کروں ۔ جب میں نے اندیشہ ہائے دور دراز کی بنا پر اس اقدام سے گریز کیا تو انھوںنے کہا کہ وہ اب اپنا اخبار نکالنا چاہتے ہیں ۔ میں نے انھیں بہت روکا اور سمجھا یا۔ وہ پہلے ایک سیاسی ہفت روزہ’گریبان‘ کے نام سے نکالنے کا ناکام تجربہ کرچکے تھے۔ یہاں بھی شہاب صاحب ہی ان کی مدد کو آئے تھے جنھوںنے ایثار راعی کے پریس کی مشینیں ان کی مرضی کی قیمت پرنیشنل پریس ٹرسٹ کو فروخت کرادیں اور اس طرح ایثار راعی اس وقت مالی بحران کی گرفت سے بچ رہے ۔ ایثار راعی کے اصرار پر میں نے اخبار کے لیے نام تجویز کیا ’قومی آواز‘۔ یہ در اصل انڈین نیشنل کانگریس کے ترجمان اخبار کا نام تھا اور نہرو خاندان کی ملکیت تھا۔ ’قومی آواز‘ کے ساتھ ساتھ نہرو خاندان ’نیشنل ہیرالڈ‘ کے نام سے ایک انگریزی اخبار بھی شائع کرتا تھا مگر جب اندرا گاندھی ایک سیاسی طوفان کی لپیٹ میں آئیں تو انھوںنے یکا یک یہ دونوں اخبار بند کردیے ۔ اس وقت ’قومی آواز‘ دہلی کے ایڈیٹر ممتاز ادیب جناب حیات اللہ انصاری تھے۔
ایثار راعی ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوئے جس میں وہ نہ خود اٹھ سکتے تھے نہ کروٹ بدل سکتے تھے مگر میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا کہ اس حالت میں بھی لاہور اور اسلام آباد کا سفر کرلیتے تھے ۔ وہ میرے دفتر میں آتے تھے تو یقین جانیں میرے لیے اپنے آنسوﺅں کو ضبط کرنا مشکل ہوجاتا تھا کہ وہ ایک دو آدمیوں کے سہارے کے بغیر صوفے سے اٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔ مجھے ان کا آخری فون نشتر ہسپتال ملتان کے ایک وارڈ سے آیا جس میں انھوںنے بڑے صبر سے مجھے بتایا کہ اب وہ آخرت کے سفر پر روانہ ہورہے ہیں۔ وہ بہت ہی باغ و بہار طبیعت کے مالک ، بہت ہی زندہ دل اور بہت ہی اچھے انسان تھے۔ ان کے چلے جانے سے صحافت میں تو کوئی خلا پیدا ہوا ہے یا نہیں مگر وہ جاتے جاتے میرے دل کی دنیا تو ویران کرگئے۔ مجھے قدم قدم پر ایثار راعی یاد آتے رہیں گے ۔
میں وہ دن کبھی نہیں بھولوں گا جب روز نامہ ’آفاق‘ سے مصطفی صادق کی ہمدردی میں میں نے مستقبل کا سوچے سمجھے بغیر استعفیٰ دے دیا ۔ یہ ایثار راعی تھے جو مجھے سمجھا بجھا کر ’ڈیلی بزنس رپورٹ‘ کے مالک اور ایڈیٹر چودھری شاہ محمد عزیز کے پاس لے گئے اور مجھے اتنی ہی تنخواہ پر ’ڈیلی بزنس رپورٹ‘ کا نیوز ایڈیٹر مقرر کرادیا جتنی تنخواہ میں ’آفاق‘سے لیتا تھا ۔ میں بعض وجوہ کی بنا پر وہاں ملازمت پر آمادہ نہیں تھا مگر ایثار راعی یہ کہہ کر مجھے وہاں لے گئے کہ تم کم از کم اتنے دن کام کرلو جس سے کالج کی فیس کے پیسے حاصل ہوسکیں اور میں نے کیا بھی یہی ۔ میں وہ دن بھی کبھی نہ بھلا سکوں گا جب روز نامہ ’کوہستان‘ کی اشاعت پر دو ماہ کی پابندی عائد ہونے کے بعد روز نامہ ’نوائے وقت‘ کی انتظامیہ نے مجھے فوری طورپر لاہور سے ملتان چلے جانے کا حکم دیا جہاں ایک فرشتہ سیرت صحافی جناب مقبول احمد جو ’ نوائے وقت‘ ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے میرے منتظر تھے ۔ ان کے علاوہ وہاں میرا کوئی جاننے والا نہ تھا ۔ مقبول صاحب ’آفاق‘ لائل پور کے بھی ریذیڈنٹ ایڈیٹررہے تھے جہاں میں ان کے ماتحت کام کرتا رہا ۔ میرے تقرر کا معلوم ہوتے ہی دوسرے دن ایثار راعی ’نوائے وقت‘ کے دفترآپہنچے اور اسی شام انھوںنے اپنے گھر پر میرے لیے ایک پُر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا اور اس طرح ملتان میرے لیے اجنبی نہ رہا اور میں نے اپنی زندگی کے مشکل دن ایثار راعی کی بدولت قدرے آسانی سے گزارلیے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...