واپسی مشروط نہیں ہوتی!!!

خبر ہے کہ سابق وزیراعظم، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسمبلی میں واپسی امریکی سائفر کی تحقیقات سے مشروط کر دی ہے۔ اسمبلی میں واپسی کی سوچ تو خوش آئند ہے لیکن کبھی مشروط واپسی ہوئی ہے، یا معاملات کو بہتر انداز میں حل کرنے کے لیے فریقین شرائط رکھتے ہیں۔ جہاں تک اس سائفر کی تحقیقات کا تعلق ہے اس حوالے سے ریاستی ادارے متعدد مرتبہ واضح کر چکے ہیں، اداروں کا موقف تحقیقات کے بعد ہی سامنے آیا تھا پھر پی ٹی آئی کے سربراہ کی طرف سے سائفر کی تحقیقات کا مطالبہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ چند ماہ پہلے والے موقف پر قائم ہیں۔ اگر اسمبلی میں واپس آنا ہے تو اس سائفر کے حوالے سے جو کرنا ہے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کریں۔ جمہوری لوگوں کے لیے پارلیمنٹ ہی سب سے اہم اور معتبر پلیٹ فارم ہے۔ جہاں مسائل زیر بحث آتے اور مسائل حل بھی ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں جانا ہے تو شرائط رکھنے سے بہتر ہے اسمبلیوں میں واپس جائیں اور اس حوالے سے مناسب راستہ بھی اختیار کریں لیکن اس سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران جو کچھ کہتے رہے ہیں اس کا دفاع کیسے کرنا ہے یا امریکہ مخالف بیانیے یا غیر ملکی سازش کے بیانیے پر کیا دلیل پیش کرنی ہے۔ موجودہ حالات میں اسمبلی واپس آنے کے بعد ہر روز سوالات ہوں گے۔ عین ممکن ہے عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں سے بعض لوگ اسمبلی میں واپسی کی مخالفت کریں یہ لوگ عدالتی معاملات میں اپنے چیئرمین کو غلط مشورے دیتے رہے ہیں وہ تو بھلا ہو حامد خان کا جنہوں نے عمران خان کو عدالت میں معافی پر قائل کیا ورنہ کھیل بدل بھی سکتا تھا۔ اب اسمبلی میں واپسی کے لیے بھی اندرونی طور پر بعض لوگ اس کی مخالفت کریں گے لیکن جمہوری نظام کی بقا اور سیاسی رویے اسمبلیوں میں رہنے کا تقاضا کرتے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ "اب حکومت ملی تو ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ پہلی بار حکومت میں آئے تھے اس لیے غلطیاں ہوئیں، معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے جامع منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔" اسمبلیوں سے استعفیٰ بھی سیاسی غلطی تھی، حکومت میں ہوتے ہوئے غیر منتخب اور غیر ملکیوں کے ہاتھوں میں کھیلنا بھی غلطی تھی، نظریاتی کارکنوں سے دوری اختیار کرنا بھی غلطی تھی، اپوزیشن سے محا آرائی بھی بڑی سیاسی غلطی تھی، اسی طرح ریاستی اداروں سے محاذ آرائی بھی غلطی تھی اور سب سے بڑھ کر عوامی مسائل کو نظر انداز کر کے، ترقیاتی کاموں کو نظر انداز کر کے ہر وقت سیاسی بیان بازی پر توجہ بھی سیاسی غلطی تھی۔ اس کے علاوہ اہم تعیناتیوں کے معاملے پر میرٹ کو نظر انداز کرنا بھی بڑی غلطی تھی۔ یہ کوئی ایک غلطی کی بات نہیں بلکہ ایک تسلسل ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو کسی نے کیا نکالنا تھا یہ خود ہر وقت نکلنے کی تیاریاں کرتے رہتے تھے اور حکومت سے نکلنے کے بعد ریاستی اداروں اور دوست ممالک کے حوالے سے جو منفی رویہ اختیار کیا گیا یہ حکومت میں کی جانے والی غلطیوں سے کہیں زیادہ خطرناک رویہ تھا۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے صرف غلطی نہیں کی بلکہ اداروں کی حب الوطنی کو بھی مشکوک بنایا ہے یہ وہ پہلو جس بارے بالخصوص افواجِ پاکستان میں نہایت غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اس کا اظہار مختلف مواقع پر ہو چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف اس حوالے سے اداروں کے ساتھ کیسے معاملات کو بہتر بناتی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ "ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات تھے، پتا نہیں کب اور کیسے خراب ہوئے، اپوزیشن سے زیادہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی ضرورت ہوتی ہے، ہم اپوزیشن میں ہیں تو اپوزیشن میں رہتے ہوئے تعلقات کیسے ہو سکتے ہیں؟ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ حقیقت ہے، اس کے پاس تمام اختیارات ہیں۔" خان صاحب واپسی کا سفر شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں بہتر حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ اگر اسٹیبلشمنٹ حقیقت ہے تو پھر بیک ڈور ڈپلومیسی کے بجائے فرنٹ فٹ پر کھیلیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے اقدامات کریں اور قومی سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں۔ سوچ میں وسعت کا مطلب تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر چلنا ہے۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملائیں، اسٹیبلشمنٹ کی مدد لیں اور ملک کو در پیش بڑے مسائل سے نکالنے کے لیے کام کریں۔
پاکستان مشکل دور سے گذر رہا ہے کمزور معیشت کا مسئلہ پہلے سے موجود تھا اب سیلاب سے پھیلنے والی تباہی نے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ سوا تین کروڑ سے زائد افراد براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ ابتدائی جائزے کے مطابق سیلاب سے لگ بھگ تیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے مالی نقصان سے بڑھ کر جانی نقصان زیادہ اہم ہے کیونکہ اس کا ازالہ ممکن ہی نہیں ہے اور سیلابی پانی سے پھیلنے والی بیماریاں اور مشکلات میں گھرے لوگوں کی زندگی خطرے میں ہے۔ جن علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچائی ہے اگر وہاں بروات مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو ملک کو بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ یوکرائن اور روس کی جاری جنگ کی وجہ سے دنیا کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ تیل اور اناج کا بحران ہمارا انتظار کر رہا ہے، سیلاب سے آنے والی تباہی کی وجہ سے لاکھوں ٹن گندم درآمد کرنا پڑ سکتی ہے۔
خبر یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ نون کے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اسحاق ڈار وطن واپس آ رہے ہیں اور وہ منگل کو وفاقی وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالیں گے۔ اسحاق ڈار کی واپسی کا مطلب ہے کہ قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا اور اب پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس سڑکوں پر رہنے یا پھر دوبارہ قومی اسمبلی میں آنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...