فیض عالم
قاضی عبدالرﺅف معینی
دور حاضر میں دنیا بھر کے مسلمانوں کا عہد زوال بے مثال ہے اور انسانی تاریخ میں مسلمانوں کے عروج کی بھی مثال نہیں ملتی۔عروج و زوال کی دونوں داستانیں ایمان افروز بھی ہیں اور عبرت ناک بھی۔ان دونوں کے اسباب اور وجوہات کو جاننا بہت ضروری ہے۔ظہور اسلام سے قبل جب انسانیت پر نزع کا عالم طاری تھاتواللہ پاک نے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایاتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو تاریکی سے نکال کر روشنی کے طرف لائیں۔
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
آپ کی دعوت اور تربیت سے تاریکیوں سے روشنی کا سفر شروع ہوا کی۔چشم فلک نے دیکھا کہ مسلمانوں نے جب اس نسخہ کیمیا ” قرآن مجید“کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا شروع کی توعروج کی منازل طے کرتے چلے گئے۔موجودہ نسل اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر حکومت کی۔یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں نے علم، ادب اور سائنس کے میدانوں میں اپنے جھنڈے گاڑے ہوئے تھے۔مسلمانوں نے طب، سائنس،انجینئرنگ،آرٹ، ہوابازی، کیمیا،فزکس، معاشرت، قانون سازی،تعمیرات، ایجادات،طرز حکومت،ریاستی نظام ،عدل و انصاف میں بجا طور پر اقوام عالم کی قیادت کی۔مغربی دنیا کی ترقی سے مرعوب اور اپنے مسقبل سے مایوس نوجوان کو بتانا اہم ہے کہ اس وقت اسلامی تہذیب دنیا کی بڑی تہذیب تھی اورمسلمان معاشی اور عسکری لحاظ سے سپر پاور تھے۔
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہان گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
پھر یوں ہوا کہ مسلمانوں نے اس نسخہ کیمیا کی تعلیمات کو بھلا دیا۔ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے منہ موڑ لیا۔اور پھر
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
قرآن پاک سرچشمہ ہدایت ہے۔قرآن کریم کامیابی کا دائمی منشور ہے۔قران حکیم میں دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کا مکمل نسخہ موجود ہے۔اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے زندگی سنور جاتی ہے۔چونکہ آج کے مسلمان نے اس سرچشمہ علم و ہدایت سے رہنمائی لینا چھوڑ دی ہے اس لیے فلک نے آنکھیں پھیر لی ہیں اور زمیں بھی اس کے لیے تنگ ہوگئی ہے۔۔حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے مسلمانوں کے اس طرز عمل کی منظر کشی فرمائی
بہ آیاتش ترا کارے جز ایں نیست
کہ از یٰسین او آسان بمیری
تجھے قرآن پاک کی آیات کا ایک ہی استعمال آتا ہے کہ مرت وقت سورہ یٰسین کی تلاوت کی جائے تاکہ جاں آسانی سے نکل جائے۔افسوس اس بات کا ہے کہ جس قرآن پاک کا ایک ایک لفظ زندگی دیتا ہے یہ قوم اب اس کو موت کی آسانی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔یاد رہے کہ اگر مسلمانوں نے نے اپنا کھویا ہوا وقاراورگمشدہ متاع عزیز پانی ہے تو اسے اس نسخہ کیمیا سے مضبوط تعلق استوار کرنا ہوگا۔
قانون فطرت ہے کہ جب بھی قوم نفس پرستی کا شکار ہو جاتی ہے،دین سے دور ہو جاتی ہے،اخلاق تباہ ہو جاتے ہیں اور حدودالہی سے بغاوت کی جاتی ہے تو بد ترین زوال اس قوم کا مقدر ہو جاتا ہے۔تن آسانی اور راحت پسندی بھی زوال کی بڑی وجوہات میں سے ہیں۔مسلمانوں نے بھی یہی کچھ کیا۔اپنی بد اعمالیوںاور کمزوریوںکی وجہ سے تیزی سے زوال کے مراحل طے کرتے جا رہے ہیں۔
دنیا بھر کے اسلامی ممالک کی زمینیں وسائل سے مالا مال ہیں۔مسلمان نوجوانوں کا شمار دنیا کے ذہین نوجوانوں میں ہوتا ہے۔اللہ پاک انہیں صحیح اور مخلص مذہبی اور سیاسی قیادت عطا فرمائے۔یہ بھی دعا ہے کہ
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے ،جو روح کو تڑپا دے
بھٹکے ہوئے آہو کوپھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے
رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر
خود داری ساحل دے،آزادی دریا دے