دانش ....منور حسین
Mani7166203@gmail.com
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں بے اے کی انگلش کی تیاری کر رہا تھا بی زیڈ یو ملتان سے گریجویشن کی لیکن اکثر انگلش کی وہاں کئی لڑکوں کو کمپارٹ آ جاتیں اگر کوئی پہلی چھلانگ میں بے اے کر جاتا تو بڑی بات تصور کی جاتی۔اور وہ خود کو تیس مار خاں سمجھتا۔شاید میں بھی پہلی بار میں تمام مضامین پاس کر جاتا گر پڑھائی کے ساتھ نوکری نہ کر رہا ہوتا۔بہرحال ان دنوں گاوں میں زمینوں پر ڈیرہ زیر تعمیر تھا میں بھی شہری زندگی سے افسردہ تھوڑے دنوں کے لیے گاوں شفٹ ہوگیا تھا تاکہ آزادی سے تیاری کر سکوں۔اب بھائی صاحب نے شہر ملازمت کو چلے جاتے لیکن میرے ذمے ساتھ مستری مزدور کی سپروائزری کر جاتے۔میں ساتھ پڑھتا رہتا اور ان پر نظر بھی رکھتا۔اب شاید خدا کی کرنی ایسی تھی یا شاید میرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جس بارے سوچ رہا ہوتا ہوں اسکا کوئی عملی نمونہ میرے سامنے آ موجود ہوتا ہے۔وہ بھی کوئی ایسا ہی دن تھا۔میں انگلش کی ایک کہانی پر اٹکا ہوا تھا (خیپل دی کنگ)۔اب گاوں کےجو ایک مستری اور دو مزدور تھے وہ کام پر لگے ہوئے تھے میں انہیں بغور ساتھ ساتھ دیکھ رہا تھا۔ایک مستری اور مزدور ایک ہی گھر سے تھے اور انکے درمیان پھنسا ہوا تھا منشا جو کہ کسی اور گھر سے تھا وہ بیچارہ بھلا مانس مٹی میں مٹی ہوا تھا لیکن وہ دونوں نکمے باتوں میں مصروف کوئی آدھ گھنٹا گزرتا سگریٹ پینے بیٹھ جاتے اور منشا کو کہتے شاباش شاباش لگے رہو۔اب گھنٹہ گزرتا تو مجھے چائے کی فرمائش کر دیتے میں کوئی تین بار انہیں دودھ پتی پلا چکا تھا جب کوئی دن کے دو ڈھائی ہوئے تو مجھ سے رہا نہ گیا۔میں نے کہا یار کام چھوڑو مجھ سے ایک انگلش کی کہانی سنو وہ بڑے اشتیاق سے میرے گرد بیٹھ گئے۔میں نے کہا کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا اس نے ارادہ کیا کہ ایک نیا محل تعمیر کیا جائے اسکے لیے اس نے ایک شخص کو ٹھیکہ دیا کہ میرا محل تعمیر کرے۔اسکے لیے بادشاہ نے انہیں ایک سال کا وقت دیا کہ اسکے بعد میں آوں گا اور مجھے کام مکمل چاہیے۔اب جو ٹھیکے دار تھا وہ مستری مزدوروں کے ساتھ گپ شپ میں سارا دن وقت ضائع کر دیتا یا کھانے پینے میں مصروف رہتا اور خوب بجٹ ضائع کرتا اس عیاشی میں اسے پتہ ہی نہ چلا کہ سال گزر گیا۔اب بادشاہ کی آمد کا وقت تھا اطلاع بادشاہ کو مخبروں نے پہنچا دی تھی کہ کام صفر بٹا صفر ہے۔اب جب بادشاہ نے پہلے دن وزٹ پر ٹھیکے دار سے کہا مجھے وہ جگہہ دکھاو جہاں میرا تخت ہے اب چارو ناچار وہ بادشاہ کواسکے تخت والی جگہہ لے گیا اب تخت کیا تھا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔بادشاہ نے کہا واہ ٹھیکے دار صاحب واہ خوب تخت تیار ہوا ہے اب مجھے ذرا اس پر بیٹھ کر دکھائیں اب ٹھیکے دار صاحب بادشاہ کی ہیبت کی وجہ سے ہوا میں معلق گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے بادشاہ نے اپنے تیر کماندار کو حکم دیا کہ شام تک اگر یہ کوئی تھوڑی سی بھی حرکت کرے اسے اڑا دینا۔اب دوسرے دن بادشاہ نے اپنے سوئمنگ پول کو دورہ کیا پول کیا تھا بس پانی جمع کرنے کے لیے ایک بڑی سی ہو دی تھی۔سخت سردی تھی بادشاہ نے اسے محسوس نہیں ہونے دیا اور کہا خوب اب اسے اس ٹھنڈے پانی میں غوطے دو۔تیسرے دن بادشاہ نے اپنے گارڈن کا دورہ کیا تو وہاں صرف جھاڑیاں اور جڑی بوٹیوں تھیں۔بادشاہ مخاطب ہوا بہت اعلی اب ٹھیکدار صاحب کچھ خوشبو دار پھول سونگھیں مجبوری میں اسے وہ جھاڑیاں اور جڑی بوٹیوں کو سونگھنا پڑا جس سے ٹھیکدار صاحب کو چھینکیں آنی شروع ہوگئیں۔بادشاہ نے حکم دیا اگر یہ چھینک مارے تو اسے اڑا دینا۔اب جب کہانی مکمل ہوئی تو وہ دونوں منشا مزدور کا پورا ساتھ دے رہے تھے۔مطلب انہیں کہانی سمجھ آچکی تھی اور میں بھی چین سے پڑھائی میں مصروف ہوچکا تھا اسکے بعد شام تک انہوں نے مجھ سے چائے نہیں مانگی۔بہرحال یہ ہمارے نچلے درجے کا حال ہے۔پچھلے دنوں میاں صاحب فرما رہے تھے 16 ماہ میں جو آپکی خدمت کی دوبارہ موقع ملا تو اس سے بھی زیادہ۔۔۔اور میں سوچ رہا تھا کہ میاں صاحب اور اس ٹھیکدار کی عادات کتنی ملتی جلتی ہیں۔شاید اس بار عوام خیپل بن جائے۔