لالہ زار نیل کنٹھ

نگارشاتِ انجم....ڈاکٹر محمد وسیم انجم
drwaseemjum@gmail.com
خان محمد بدر چوہان نے اُردو ، پنجابی، گوجری، پہاڑی اور کشمیری زبانوں میں شاعری کی ہے۔ اس طرح یہ شش زبان اور شش جہت شاعر ہیں۔ شاعر ان زبانوں میں وسیع ذخیرہ الفاظ مختلف معنی اور متنوع لسانی خصوصیات کی بدولت زندہ اور متحرک عالم میں ہر جہت روشنی بکھیرتے نظر آتے ہیں۔آزاد کشمیر چکیاس سے بلند ہونے والی شعری آواز کشمیر کے ساتھ پاکستان اور دنیائے اُردو کے چارسو عالم میں گونج رہی ہے۔ انھوں نے بغیر سہارے طویل سفر طے کیا ہے۔ ان کی شاعری کشمیر میں اُردو نظم اور غزل گوئی کی تاریخ میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ کشمیر میں اُردو شاعری کے ارتقا میں ان کی نظمیں اور غزلیں قدیم و جدید روایات کی علمبردار ہیں۔ ان کی شاعری فطرت کے حسین نظاروں سے مالا مال ہے۔ انھیں شاعر فطرت کا خطاب دیا جا سکتا ہے۔ ان کے اشعار میں داخلی اور نفسیاتی اُمور کے ساتھ فطرت کی طرف مائل ہیں۔ اِن میں حسن و عشق کے جذبات بھی سرکار رکھتے ہیں۔ ان کا دل ایک شاعر کا ہے اور شاعری کا محور محبت ہے جو انسانی زندگی کی تکمیل کا راستہ دکھاتی ہے۔ محبت ان کی فطرت میں شامل ہے اور فطرت کے ساتھ ان کا روحانی تعلق ہے جو انھیں فطرت کے حسین نظاروں سے دستیاب ہوا ہے۔ ان کی شاعری محبت کے مضبوط رشتوں میں بندھی ہوئی ہے۔ ایسی محبت جو اللہ تعالیٰ، حضور اور انسانوں کے ساتھ وطن سے معمور ہے۔ ان کی شاعری دل کو گدازاور دردمندی کی دولت سے آشنا کرتی ہے۔ بدر چوہان کا چھٹا مجموعہ کلام ”نام لالہ زار نیل کنٹھ“ اُردو اور گوجری نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ مجموعے کے آغاز میں حمدیہ اور نعتیہ شاعری ہے۔ شاعری میں حمد اور نعت کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ انھوں نے حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں رب زوالجلال کی واحدانیت اور کبریائی کے ساتھ حضور کی شان اقدس میں عقیدت کے موتیوں سے بھرپور چھ حمد اور تین نعتوں میں ایک گوجری نعت بھی پیش کی ہے۔ منقبت حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا کے ساتھ حضرت ماہی حلیہ ؓ کی بکری پر نظم اور پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کی درگاہ، پیر طریقت سید ولایت شاہ بخاری یزدانی بساہاں شریف حویلی پر منظوم ہدیہ کلام ہے۔ 
مرغ سہر پر نظم کے بعد انیس نظموں میں ایک گوجری زبان میں نظم شامل ہے۔ اس کے بعد غزلیات میں انیس غزلوں میں ایک گوجری غزل بھی ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے شامل کی گئی ہے۔ غزلیات کے بعد گوجری زبان میں گیت اور مختلف عنوانات کے تحت اکسٹھ نظموں میں گوجری زبان میں قومی ترانہ اور بیچ میں غزل کی چاشنی ہے۔ ان نظموں میں مختلف شخصیات میں لالہ شاہ محمد ہیڈ ماسٹر، حریت راہنما سید علی گیلانی، اپنے فرزند خالد مسعود چوہان اور پوتے ایاز مسعود کے سانحہ ارتحال پر نوحے تحریر کیے گئے ہیں۔ اسی طرح والدہ محترمہ کی یاد میں گمنام شہید صوبیدار فقیر محمد کٹاریہ، مولانا اشفاق ربانی خطیب جامع مسجد اور سردار سکندر حیات صدر و وزیر اعظم پر منظومات میں ان کی پوری شخصیت کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ ان نظموں میں مجموعہ کتاب ”نام لالہ زار نیل کنٹھ“ کے عنوان سے دو نظمیں پیش کی گئی ہیں۔ ان نظموں میں اپنے خطے کو گل و گلزار فطرت کے عین مطابق قرار دیا ہے جبکہ نیل کنٹھ اس خطے میں پایا جانے والا ایک پرندہ ہے جسے مختلف زبانوں میں مختلف نام دیئے گئے ہیں اُردو میں نیل کنٹھ اور سندھی میں اسے ”چانھ پکھی“ کہتے ہیں، ان کی دو نظموں سے چند اشعار ملاحظہ کیجیئے۔
اے پونچھ تیری دھرتی کا یہ نگار نیل کنٹھ ہے
پروں کا رنگ نیلا گلے میں سنگار نیل کنٹھ ہے

نیل گائے نیل کنٹھی یہاں کی پیداوار ہے
نیلم و نیلوفر کا بھی گلزار نیل کنٹھ ہے

پونچھ کے ماتھے کا جھومر کہوں میں اس کو 
کسی شاعر کے دل کی بہار نیل کنٹھ ہے
....
مجموعہ کتاب نیل کنٹھ کی صدا ہے
رنگا رنگ پھولوں کے بہاروں کی ادا ہے

کشمیر کی فضاﺅں ہواﺅں کے تاثرات
یہ دھرتی باقی دھرتیوں سے بالکل جدا ہے

فطرت کے مناظر نے اسے بخشی ہے تجلی
کنٹھ ان کوہساروں کی اِک خاص ادا ہے

ای پیپر دی نیشن