محمد رمضان چشتی
آج کل ایک نوجوان ڈیلوری بوائے رئیس کے بہیمانہ قتل کا ہر طرف چرچا ہے۔ جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پوش ایریا کی تین کمسن بچوں کی ماں آمنہ نے مبینہ طور پر اسے رات گئے گھر بلا کر اپنے شوہر فرہان کے ہاتھوں قتل کرا دیا اور بعدازاں اس کی نعش مانگا منڈی کے نزدیک شامکے بھٹیاں میں ویران جگہ پر پھینک کر اسے نذر آتش کیا سوشل میڈیا پر یہ قتل ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے جبکہ یوٹیوبرز خواتین و مرد حضرات اس ایک واقعہ پر نجانے کتنی کتنی ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ اس شوروغوغا اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہاہے اور دونوں فریقین کے بارے میں جانبدارانہ رویہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔
ملزم فرحان اور آمنہ اپنے بچوں کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہے تھے، فرحان سخت مزاج کا تھا، لوگوں سے ملنا جلنا کم تھا لیکن اس نے گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں کی ہوئی تھی، کہا جاتا ہے کہ غصہ اور سخت رویے کے باعث بیوی آمنہ کی ناک کی ہڈی بھی توڑ چکا تھا۔ بیوی سخت رویے سے ڈری سہمی رہتی۔ گزشتہ پانچ چھ ماہ کے دوران ڈلیوری بوائے مقتول کا ان کے گھر پارسل کے سلسلہ میں آنا شروع ہوا۔ بقول ملزم فرحان اور آمنہ کے ریئس انہیں فون اور مسیج کرکے خوفزدہ اور دھمکا رہا تھا ار ان کی کمسن بچی کو بھی نقصان پہنچانے کی دھمکی دے رہا تھا جس پر ملزم فرحان نے اسے بیوی کے نمبر سے فون کرکے گھر بلایا اور اسے سمجھایا اور اس کے باز نہ آنے پر اس کے ہاتھ پاﺅں باندھ کر اسے چند ڈنڈے مارے ایک ڈنڈا اس کے سینے پر لگا جبکہ ناک پر بھی ضرب لگائی، بقول اس کے اس کا ارادہ اسے مارنے کانہیں تھا وہ اسے ڈرا کر پولیس کے حوالے کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی موت ہوگئی اور وہ خوفزدہ ہوگیا اور ثبوت مٹانے کے لئے اسے ویرانے میں جا کر پٹرول چھڑک کر جلانے کی کوشش کی۔
اس کے قتل کے بعد دونوں ملزم میاں بیوی پولیس کی حراست میں ہیں۔ مقتول رئیس کے بزرگ والدین، بہن بھائیوں اور منکوحہ پر قیامت نوٹ پڑی ہے۔ مقتول کا نکاح ہو چکا تھا اور چند یوم بعد شادی اور رخصتی تھی مقتول کی والدہ مقتول بیٹے کے نکاح کا کلاہ، شیروانی کپڑے ہاتھ میں لیے دل ہلا دینے والے بین کرتی رہتی ہے جبکہ گھر سے ملحقہ قبرستان میں سپرد خاک اپنے لخت جگر کی تازہ قبر کو چھت سے دیکھ کر صبر کھو بیٹھی ہے۔دوسری طرف منکوحہ بیوی ہے جو رخصتی سے قبل بیوہ بن گئی، تیسری جانب وہ تین کمسن بچے ہیں جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں رہا کہ ایک لمحہ میں وہ باپ کی شفیق چھاﺅں اور ممتا سے محروم ہوگئے ہیں، ان کا مستقل کیا ہوگا؟ وہ کیسے جئیں اور زندگی بسر کریں گے۔ ان کے نام کے ساتھ کیاکیا غلیظ اور شرمناک حوالے لگ چکے ہیں جو زندگی بھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے جبکہ وہ بے قصور تھے۔
اسلام ایک دین متین ہے اور اس نے ضابطہ اخلاق مرتب کر دیا ہے کہ اگر تین بار دروازہ کھٹکھٹانے پر کوئی باہر نہ آئے تو واپس چلے جاﺅ اور دروازے کے بالکل سامنے کی بجائے قدرے سائیڈ میں کھڑے ہوں تاکہ اہلخانہ یکلخت بے پردگی نہ ہو، آمنہ کے کردار پر سوالات تو اٹھائے جا رہے ہیں لیکن یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جا رہی کہ اہل علاقہ کے مطابق اسے کسی نے بھی کبھی آزادانہ غیر مردوں سے میل جول کرتے نہیں دیکھا اور وہ خالصتاً گھریلو خاتون اور ماں ہے۔ بعض اوقات شوہروں کی بے جا سختی اور شکی پن بھی ایسے سانحات کا باعث بن جاتا ہے۔ عورت فطرتاً نرم دل اور تعریف سننے کی بھوکی ہوتی ہے۔ کسی کے دو تعریفی جملے اس کے دل میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ اب لیٹ نائٹ فاسٹ فوڈ اور پارسل منگوانا عام ہے، گھر کے مرد جاب پر، باہر یا سو رہے ہوتے ہیں، خواتین اور لڑکیاں ڈیلوری بوائے سے پارسل وصول کرتی ہیں۔ اور خواتین کے نمبر بھی آ جاتے ہیں۔ آن لائن جیولری اور خواتین کی ضرورت کی اشیاءبھی منگوائی جاتی ہیں۔ انہیں سستی چیزوں کا لالچ بھی دیا جاتا ہے۔ اسلام نے اسی لیے نامحرم سے ملنے سے سختی سے منع کیا ہے، جس کا اب خیال نہیں رکھا جارہا کوئی جذباتی لمحہ کسی بھی انسان کو بہکا کر لے جاتا ہے اور پھر رئیس اور فرحان جیسے سانحات پیش آتے ہیں۔
رئیس از خود وہاں رات گئے آیا یا ملزم فرحان نے اسے فون کرکے بلایا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ اسے رات کے وقت آمنہ کے گھر آنا ہی نہیں چاہیے تھا اس کا نکاح ہو چکا تھا، چند دن بعد شادی تھی۔ کمپنی کی طرف سے بھی کوئی آرڈر نہیں تھا۔ اب اگر وہ کسی صورت آگیا ہے تو فرحان کوعقل سے کام لیتے ہوئے اسے کمرے میں باندھ کر متعلقہ پولیس کے حوالے کر دینا چاہیے تھا۔ اسے اس بے رحمی سے قتل اور جلانے کا قطعاً کوئی جواز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے، اگر رئیس آمنہ کو تنگ کر رہا تھا اسے اپنے شوہر کو اعتماد میں لے کر فوری طورپر بتانا چاہیے تھا یا اس کے مزاج سے خوفزدہ تھی تو سسر، دیور، دیورانی کو بتا دیتی تو ایک نوجوان کی جان نہ جاتی اور دونوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ ہوتے اور نہ ہی ان کے کمسن بچے والدین سے محروم ہوتے، ناہی میڈیا اس کے کردار پر غلاظت اچھالتا۔ آمنہ نے قتل تو نہیں کیا، اگر اس کی ضمانت ہو جاتی ہے تو بچے پھر سے ماں کے آنچل کی چھاﺅں تلے آ جائیں گے۔
ایک بے گناہ اور مجبور خاتون کا چند سال پہلے کا واقعہ یاد آگیا جسے ان کا ڈرائیور چھیڑ چھاڑ کرتا، وہ شوہر اور بچوں کو بھی آفس اور سکول لیکر جاتا۔ شوہر کو اس لیے نہ بتا سکی کہ گھر میں ناچاقی ہوگی۔ ڈرائیور اس پاکباز خاتون پر تشدد بھی کرتا اور شوہر ،بچوں کے قتل کی دھمکی بھی دیتا ۔ خاتون اتنی زیادہ ذہنی دباﺅ میں آئی کہ اسے کینسر ہوگیا جب وہ ہسپتال میں قریب المرگ تھی تو اس نے یہ بات اپنی بہن کو بتائی لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ فرحان، آمنہ اور رئیس جیسے واقعات ہمارے آس پاس رونما ہوتے رہتے ہیں اور ہم ان سے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں جو بالآخر کسی بڑے سانحہ کا سبب بن جاتے ہیں۔چٹخارے دار ویڈیوز کو نظر انداز کرتے ہوئے پولیس کی تفتیش اور حقائق اور ثبوتوں کی روشنی میں فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو یقینی بنا سکتا ہے۔اللہ پاک ان تین کمسن معصوم بچوں پر رحم کرے اور رئیس کے غمزدہ اہلخانہ کو بھی صبر جمیل عطا کرے۔
ڈیلوری بوائے کے بیہمانہ قتل کے محرکات
Sep 25, 2023