اکادمی ادبیات پاکستان ادیبوں کی فلاح وبہبود کے لئے قائم ایک سرکاری ادارہ ہے جس کا دائرہ کار ملک کے طول عرض میں پھیلا ہوا ہے ادیبوں شاعروں کے درمیان ہم آہنگی کی فضا قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی ادب اور ادیب کی شناخت بھی اس ادارے کے فرائض میں شامل ہے اس ادارے کو مزید فعال کرنے کے لئے اس کی صدر نشینی کا قرعہ فعال ایک خاتون ادیب کے نام نکلا ہے۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف اکادمی ادبیات پاکستان کی پہلی خاتون چئیر پرسن نامزد ہوئی ہیں اس نامزدگی کو ملک بھر کے ادیبوں شاعروں اور دانش وروں نے خوش آئیند قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف ایک کامیاب ماہر تعلیم ہیں جرائد کی ادارت کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں ڈاکٹر صاحبہ کے بہت سے ریسرچ جنرل میں مضامین بھی شائع ہو چکے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود بھی اعلی پایہ کی ادیبہ اور شاعرہ ہیں ان کے شریک حیات عارف صاحب بھی ادیب ہیں ان کی والدہ ہدیہ ظفر جن کا حال میں ہی انتقال ہوا ہے۔ ابھی ایک نابغہ روزگار شخصیت اور نامور ادیبہ تھیں ان کی کتاب جیون دھارا اردو ادب میں خاصی پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔ لہٰذا ان کو گھر میں بھی ادبی ماحول میسر رہا ہے کہتے ہیں کہ خواتین اچھی منتظم ثابت ہوتی ہیں تو اب اکادمی کے انتظام و انصرام میں بھی کئی تبدیلیاں متوقع ہو سکتی ہیں اکادمی کے مختلف ادوار میں صدر نشینی پر متمکن شخصیات نے اس ادارے کی تعمیر وترقی کے لئے خاصا کام کیا ہے۔
فخر زمان کے دور میں اھل قلم کانفرنسوں کا میلہ لگا رہا جبکہ محترم افتخار عارف اور ڈاکٹر یوسف خشک کے ادوار بھی بھرپور ریے ریسرچ اور علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی کے ساتھ ساتھ کتابوں کی اشاعت ہر بھی زور دیا گیا ڈاکٹر یوسف خشک کے دور میں آ ن لائن سیمنار اور کانفرنسز کو فروغ دیا گیا قاسم بگھیو کے دور میں اھل قلم کے بھرپور مطالبے پر سرائیکی وسیب ملتان میں اکادمی ادبیات کے علاقائی دفتر کا قیام عمل میں لایا گیا جو الحمدللہ اب خاصا فعال ہے۔
سینر اھل قلم کی سہولت کے لئے راقم کی تجویز اور دیگر اھل قلم کی تائید پرسابق وزیر مملکت اور رکن قومی اسمبلی ملک عامر ڈوگر کے خصوصی فنڈ سے ریڈیو پاکستان کی بلڈنگ میں لفٹ کی تنصیب کا مرحلہ بھی تکمیل کو پہنچا ہے۔
اکادمی ادبیات سمیت بہت سے علمی وادبی اداروں کو حکومت کی طرف سے ہمیشہ فنڈز نہ ملنے کا شکوہ سامنے آ تا رہتا ہے اکادمی ادبیات پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان ٹیلی ویڑن ریڈیو پاکستان آرٹس کونسل نیشنل بک فاونڈیشن اور ادارہ فروغ قومی زبان کے لئے حکومت کو ضرور نرم گوشہ رکھنا چاہیے کیونکہ یہ ادارے قومی فکر و سوچ کی آ بیاری کے ساتھ ساتھ ادیبوں شاعروں اور فنکاروں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔
اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے مستحق ادیبوں اور شاعروں کی مالی امداد اور ماہانہ وظائف دئیے جاتے ہیں معذور اھل قلم کے لئے وہیل چئیر مہیا کی گئی ہیں اھل قلم کی انشورنس کی جا رہی ہے مختلف قومی اور علاقائی زبانوں کی کتب پر ایوارڈ دئیے جاتے ہیں اھل قلم کی پزیرائی کے لئے کمال فن ایوارڈ ایک خطیر رقم کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اب جبکہ اس اہم قومی ادارے کی سربراہی ڈاکٹر نجیبہ عارف کو ملی ہے تو ان سے اھل قلم بجا طور پر یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ ادارے کی شبانہ روز ترقی کے لئے اپنی صلاحیتوں کا برملا اظہار کریں گی۔ ارباب اختیار سے اکادمی کے لئے وافر فنڈز بھی حاصل کریں گی تاکہ اھل قلم کو وظائف کی بروقت ادائیگی ممکن ہو سکے۔
کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی تیز کیا جائے گا علاقائی زبانوں کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ بھی جاری رہے گا پاکستانی ادب کے معمار کی اشاعت کو بھی مزید فعال کیا جائے گا مضافاتی شہروں کے وسائل سے محروم اھل قلم کی کتابیں اکادمی کی طرف سے شائع کرنے کا لائحہ عمل بھی بنایا جائے اھل قلم کی انشورنس کے ساتھ ساتھ ھیلتھ کارڈ کا اجرا بھی ہونا چاہیے۔
ایک زمانے میں عالمی اور قومی سطح کی اھل قلم کانفرس کا سلسلہ خاصا مقبول تھا جو اب آ ن لائن کانفرنسز تک محدود رہ گیا ہے“ اسے دوبارہ اور بھرپور طریقے سے شروع کیا جائے۔ اھل قلم کا قومی سطح کا اکٹھ جہاں قومی ہم آھنگی کے فروغ کا باعث بنتا ہے وہاں ڈائیلاگ مکالمے اور آ پس کے میل جول اور ادب کے تبادلے کی بھی صورت پیدا ہوتی ہے۔
مجھے یاد ہے سابق صدر فاروق لغاری کے دور میں کانفرنس کے شرکاءکو جب ایوان صدر میں عشائیہ دیا گیا تو اس میں ہر خطے کے بہت سے نامور اھل قلم شامل تھے جب یہاں ہمارے وسیب کے نامور افسانہ نگار ادیب ڈاکٹر انوار احمد نے ایوان صدر کی شان وشوکت دیکھ کر کہا تھا کہ غیر ملکی سربراہوں سے امداد کا مطالبہ کرتے ہوے ہمارے صدر کو خاصے حوصلے اور جواں مردی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہوگا۔
اسی عشائیے میں امجد اسلام امجد عطا الحق قاسمی محسن نقوی پروین شاکر عتیقہ اوڈھو اور علم وادب کی کئی نابغہ روزگار اور نامور شخصیات سے بھی ملاقات رہی اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام بین الصوبائی اھل قلم کے وفود کے دوروں کا سلسلہ بھی پھر سے شروع ہونا چاہیے تاکہ مختلف علاقوں اور زبانوں کے اھل قلم کے درمیان بھائی چارے اور ہم و آھنگی کی فضا پیدا ہو اور ایک دوسرے کی زبان اور ادب سے مکمل آ گاہی حاصل ہو۔ تمام شہروں میں قائم علاقائی دفاتر کو فعال کرتے ہوئے یہاں کے اھل قلم کو قومی دھارے میں شریک کیا جائے اور قومی سطح کا یہ ادارہ ملک کے اھل قلم اور دانشوروں کے لئے ایک موثر پلیٹ فارم اور توانا آواز ثابت ہو۔
خالد اقبال یاسر ڈاکٹر راشد حمید عاصم بٹ حمید قیصر میر علی نواز سولنگی اختر رضا سلیمی ملک مہر علی اور اب نئی خاتون ڈی جی محترمہ شفق علی ہاشمی کی بھی اکادمی کے لئے خاصی خدمات ہیں اکادمی ادبیات کی نئی صدر نشیں نرم گفتار اور حساس دل کی مالک ہیں ان میں میر کارواں کی سبھی خوبیاں موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ اھل قلم ان سے نہ صرف بہت سی توقعات رکھے ہوئے ہیں بلکہ ان کی شخصیت کے کشف وکرامات کے بھی منتظر ہیں ہم ان کی کامیابیوں کے لئے دعاگو اور تعاون کے لئے دامے درمے سخنے ان کے ساتھ ہیں ۔
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
٭....٭....٭