آج سے سو سال پہلے مرزا غالب کے لئے ممکن تھا کہ وہ اس سے بے خبر رہتے کہ اس کے ہم عصر لندن، پیرس یا نیویارک میں کیا سوچتے اور لکھتے ہیں۔ لیکن آجکل کسی لکھنے والے کے لئے یہ ممکن نہیں رہا۔ انٹر نیٹ کی بدولت اس کی رسائی پوری دنیا تک ہے۔ اک زمانہ میں کالم نگار ہارون الرشید نے لکھا تھا کہ اک کالم نگار کیلئے لازم ہے کہ وہ مہینے میں ایک چکر لاہور، اسلام آباد ، کوئٹہ ، کراچی کا ضرور لگا لے۔ اب ٹی وی اور انٹر نیٹ کی بدولت سب کچھ آپ کی خواب گاہ میں موجود ہے۔ ابھی تک اردو شاعری احمد فراز کی نظم ”محاصرہ“ سے آگے نہیں بڑھی۔ اردو، پنجابی کی نسبت سرائیکی میں بڑا کام ہو رہا ہے۔شاید اس لئے کہ وہاں احساس محرومی بھی زیادہ ہے۔ اب یہ بات ہم سے لکی چھپی نہیں رہ سکتی کہ پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت 52روپے جبکہ بنگلہ دیش میں 18روپے اور بھارت میں 14روپے ہے۔ یہ قیمت پاکستانی کرنسی میں بیان کی جارہی ہے۔ ایرانی شہنشاہ سائرس نے جب 539قبل مسیح بابل کو فتح کر کے وہاں زرتشت مذہب نافذ کیا تھا تو ایک مقامی دارا یوں گویا ہوا :”آپ نے یہ مذہب تلوار کے زور پر پھیلا تو لیا اب دلیل کے زور پر اسے بچا کر دکھانا“۔ عوام بہت کچھ سوچ رہے ہیں۔ اگرچہ مکالمہ اور مذاکرہ ان کی زندگی سے خارج کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ مالکوں کو اس کی داد تو بنتی ہے کہ وہ قوم توہین مذہب کے نام پر کٹ مرنے کو تیار بیٹھی رہتی ہے لیکن آلو ٹماٹر اور آٹے کا ریٹ درست کرنے کیلئے موزوں قیادت نہیں ڈھونڈ پا رہی۔ اک زمانے میں تعلیمی اداروں میں مباحثوں کا چلن عام ہوا کرتا تھا۔ صوبائی اور ملکی سطح پر اردو ، انگریزی ، پنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں کے مباحثے منعقد ہوتے۔ ان میں اول دوم سوم ، آنے والوں کو انعامات اور اعزازات سے نوازا جاتا۔ایک سٹوڈنٹس یونین سیاسی کارکنوں کی تعمیر و تخلیق کی نرسریاں تھیں۔ لاہور سمن آباد سے دو لڑکیوں کے اغواپر جاوید ہاشمی کی قیادت میں گورنر ہا?س سے باہر اتنا ہنگامہ بپا ہوا کہ اندر وزیر اعظم بھٹو اور گورنر کھر بے بسی محسوس کرنے لگے۔ گورنمنٹ کالج پنڈی صورتحال زیادہ مزیدار رہی۔ کالج کے حالات اتنے بگڑے کہ شان مسعود صدر گورنمنٹ کالج سٹوڈنٹ یونین نے پرنسپل سمیت پوری ایڈمنسٹریشن کو فارغ کر کے کالج کا پورا انتظام سنبھال لیا۔ یعنی وہ ایک طرح سے کالج کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ ان سٹوڈنٹس یونین کے زیر اہتمام عام ملکی موضوعات پر مباحثے ہوا کرتے تھے۔ باقاعدہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف مقرر کئے جاتے۔ کالج ہال اسمبلی قرار پاتا۔ کالم نگار کو یاد آرہا ہے ، ان دنوں گورنمنٹ ڈگری کالج سیٹلائیٹ ٹا?ن گوجرانوالہ محض انٹر کالج ہوا کرتا تھا۔ ایک مباحثہ ہو رہا تھا، عنوان یاد نہیں آرہا۔ دلدار پرویز بھٹی اپوزیشن لیڈر تھے ، دبنگ ، نڈر، منہ پھٹ اپوزیشن لیڈر۔ کامونکی سے تعلق رکھنے والے شیخ سعید احمد قائد ایوان قرار پائے۔ شیخ سعید احمد بعد میں سول سروس میں چلے گئے۔ وہ اردو کے معروف افسانہ نگار بھی تھے۔ آج دونوں ہی اللہ کے ہاں پہنچ گئے ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ شیخ سعید نے لکھی ہوئی قرار داد ایوان میں پڑھ کر سنائی۔
دلدار پرویز بھٹی مائیک پر آتے ہی یوں حملہ آور ہوئے۔ کہنے لگے :’قائد ایوان اپنی نظریں نیچی کئے یوں بول رہے تھے جیسے کوئی موقعہ پر ہی پکڑا جائے اور وہ نظریں ملائے بغیر ، نظریں چھپائے ، شرمندہ شرمندہ سا ، اٹک اٹک کر بول رہا ہو۔ حاضرین کا ہاسا تھا کہ رک ہی نہیں رہا تھا۔
1982ءکا واقعہ ہے۔ شیخ رشید امریکن سفارتخانہ سے نیلامی میں لی ہوئی ایک بڑی سی گاڑی پر گوجرانوالہ پہنچے۔ تکے کباب ، چڑے کھاتے ہوئے برا?ن قراقلی ٹوپی پہنے ، بوسکی کی شلوار قمیض میں ملبوس سیاست کے گ±رو ڈسکس کرنے لگے۔ وہ کہہ رہے تھے ’کامیاب عملی سیاست کیلئے ضروری ہے کہ بندہ کے ملتان کے قریشیوں یا جیلانیوں میں سے ایک اور گجرات کے چوہدریوں اور نوابزادوں میں سے کسی ایک سے گہرا تعلق واسطہ ہونا چاہئے۔ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات جنوری 2004ءکے آخر میں عندیہ دیا ہے۔ سیاستدان لنگوٹ کس کر باہر نکل آئے ہیں۔ آصف علی زرداری بھی چوہدری شجاعت کے ہاں پہنچ گئے ہیں۔ استحکام پارٹی والے ملکی معیشت کو استحکام بخشنے کا وعدہ وعید کر رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف فوراً تازہ احکامات لینے لندن پہنچ چکے ہیں۔ جماعت اسلامی والے سراج الحق بھٹو کی بھونڈی سی نقل اتار رہے ہیں۔ لیکن۔۔۔پرانی سیاست گری خوار ہے، زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے ۔
ساری جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ مل کر ایک سیاستدان کو ملکی سیاست سے دیس نکالا دینے کی کوشش میں ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟ نہیں بالکل نہیں۔ ووٹروں کی جانب سے پوری مزاحمت ہوگی۔ الیکشن کے نتائج اسٹیبلشمنٹ کیلئے بالکل غیر متوقع ہونگے۔ ادھر الیکشنوں میں اب بنگلہ دیشی رفیق آزاد جیسی آوازیں ہی سننے کو ملیں گی۔ انہوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کے زمانے میں ایک نظم کہی تھی۔ نظم کے عنوان سے ہی نفس مضمون واضح ہے۔ نظم کا عنوان تھا ”مجھے کھانا دو کمینے“۔ اب روایتی سیاست اور سیاستدانوں سے تنگ عوام کا یہی مطالبہ ہے۔
بوزنے ہیں تو ملے ہم کو ہمارا جنگل
آدمی ہیں تو مداری سے چھڑایا جائے