سیکرٹری پاور راشد لنگڑیال نے بجلی چوری کے خلاف کارروائی کرنے کی وجہ بتا تے ہوئے کہا ہے کہ بجلی چوری کے خلاف مہم جرمانوں اور وصولیوں کے لیے نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب تک بجلی چوروں کے خلاف 15 ہزار 47 ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں۔ یہ امر خوش آئند اور اطمینان بخش ہے کہ بجلی چوری کے خلاف جاری مہم کے خاطرخواہ نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اب تک دو ہزار سے زائد بجلی چوروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور ان سے 7 ارب 88 کروڑ 90 لاکھ روپے کی وصولی بھی کی جاچکی ہے۔ اگر بجلی چوروں کے خلاف شروع دن سے ہی آپریشن کیا جاتا تو آج بجلی مہنگی کرنے کی نوبت نہ آتی۔ اب جبکہ ان بجلی چوروں سے بھاری وصولی ہو رہی ہے اور مزید چوروں پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے جن سے مزید رقم وصول کی جائے گی تو یہ رقم شفافیت کے ساتھ قومی خزانے میں جمع کرائی جائے تاکہ اس کا فائدہ بجلی کے نرخوں میں کمی کرکے عام آدمی تک پہنچایا جائے۔ دوسری جانب، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی طرف سے نان پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے 101 سے 200 یونٹ استعمال کرنے پر فی یونٹ 35 روپے 92 پیسے کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ عام آدمی کو تو بل پڑھنا ہی نہیں آتا، اسے پروٹیکٹڈ اور نان پروٹیکٹڈ، فیول ایڈجسٹمنٹ، کواٹرلی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ، جی ایس ٹیکس، ایف سی سر جارچ جیسے ٹیکسوں کی اصطلاحات اور ہیراپھیری میں الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عام آدمی صرف وہ رقم دیکھتا ہے جو اس نے اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کا ادا کرنا ہوتی ہے۔ اس وقت بجلی بل کی ادائیگی عام آدمی کے لیے انتہائی مشکل ہوچکی ہے مگر حکومت عوامی مشکلات کا ادراک کیے بغیر آئے روز بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیے جا رہی ہے جس سے تنگ آکر لوگ دوسرا راستہ تلاش کرتے ہیں جس میں بجلی کی چوری اور عملے کی ملی بھگت سے بلوں میں ہیرا پھیری شامل ہے۔ حکومت تمام ناجائز ٹیکسز ختم کرکے ایسے غیرقانونی ہتھکنڈوں کے آگے بند باندھ سکتی ہے۔