حضرت مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر کلیر شریف نے سلسلہ صابریہ کو بامِ عُروج بخشا

خالد بہزاد ہاشمی
khalidbehzad11@gmail.com
حضرت مخدوم شیخ علائوالدین علی احمد صابر کلیر شریف کے چار روزہ756ویں سالانہ عرس مبارک کی تقریبات با تزک و احتشام کلیر شریف ضلع سہارنپور(انڈیا) میں 11 تا14 ربیع الاول جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوگئیں۔ حضرت مخدوم علی احمد صابر کلیری سلسلہ صابریہ کے وہ ماہ تاباں ہیں جس نے اس سلسلہ کو بام عروج تک پہنچایا، سلسلہ صابریہ سلسلہ چشتیہ کا ہی حصہ ہے۔ حضرت مخدوم علی احمد صابر کلیری حضرت شیخ العالم، شیخ کبیر، اجودھن کے درویش حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے بھانجے، داماد اور لاڈلے و محبوب خلیفہ ہیں اور انہیں حضرت بابا صاحب نے کلیر شریف  جو اس زمانے میں معروف شہر تھا کی خلافت مرحمت فرمائی تھی۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے خلیفہ تھے اور حضرت قطب صاحب کو حضرت خواجہ غریب نواز سلطان الہند، ہندالولی، خواجہ بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے دلی کی خلافت عطا کی تھی جبکہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے حضرت سلطان المشائخ، سلطان جی، محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء کو دہلی کی خلافت پر متمکن فرمایا تھا۔
 حضرت مخدوم صابر پاک کی حیات مبارکہ کے بارے میں زیادہ معلومات اس لیے نہیں ملتیں کیونکہ آپ بچپن سے خلوت و تنہائی پسند اور شروع سے ہی راہ سلوک کے مسافر تھے اور جس سخت جاں تربیت سے اپنے مرشد اور ماموں جان حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کی سرپرستی میں گزرے اس نے انہیں نہ صرف کندن بلکہ’’صابر‘‘ کے لقب سے سرفراز کر دیا۔ ان سے بے شمار کرامات منسوب ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور محبوب ترین بندوں میں سے تھے اور ان سے کرامات کا سر زد ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہاں اتنا ضرور ہے کہ کچھ کرامات اور واقعات کو مستند حوالوں کے بغیر بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا گیا جنہیں عقل و استدلال کی کسوٹی پر پرکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی تاریخ مشائخ چشت حصہ اول صابریہ سلسلہ اور اس کے مشائخ کے باب چہارم میں لکھتے ہیں’’صابریہ سلسلہ کے تمام معاصر تذکرے اور تاریخیں ان (حضرت مخدوم صابر پاک کے معاملے میں بالکل خاموش ہیں، سیرالاولیاء میں جو چند سطریں ایک بزرگ علی صابر کے حال میں درج ہیں ان کے متعلق بقول شیخ عبدالحق محدث دہلی ان کے متعلق یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان ہی کے متعلق ہیں یا کسی اور کے۔ جبکہ سترھویں اور اٹھارویں صدی کے مذہبی تذکروں میں ان کے حالات بہت بڑی تفصیل سے درج ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تذکروں نے کہاں سے یہ حالات فراہم کیے۔ ان کے ماخذ کیا ہیں اور ان کی تاریخی افادیت کس حد تک ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو ان تذکروں کی بنیاد یا توکشف پر ہے یا محض سنی سنائی روایات پر دونوں صورتوں میں ان پر اعتماد کرنا خطرے سے خالی نہیں۔‘‘
 چشتیہ صابریہ یہ سلسلہ کا پہلا مرکز ردولی(ضلع بارہ نیکی) ہے جہاں حضرت شیخ عبدالحق نے اپنی خانقاہ قائم کی اس زمانے میں سلسلہ چشتیہ اپنی مرکزیت کھو چکا تھا اور نظامیہ سلسلہ کی خانقاہیں گجرات، بنگال، مالوہ، دکن میں قائم ہو رہی تھیں جبکہ دارالحکومت دہلی اور اس کا گردونواح سلسلہ چشتیہ کے بزرگوں سے تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ شیخ عبدالحق کے انتقال1433ء کے بعد ان کے صاحبزادے شیخ عارف سجادہ نشین ہوئے اور بعدازاں حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے سلسلہ صابریہ کو منظم اور ترتیب دیا اور اسے پھیلایا اور یہ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی ہیں جنہوں نے حضرت صابر پاک کے وصال کے دو سو سال بعد آپ کے مرقد کی نشاندہی کرکے مزار مبارک بنایا، چونکہ حضرت صابر پاک کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کی اولاد ہی سجادگی کے منصب پر فائز ہے اور اس وقت 17ویں سجادہ نشین شاہ علی منظر اعجاز صابری قدوسی ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی شاہ یاور منظر اعجاز صابری قدوسی تمام انتظامات کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں نوائے وقت میڈیا گروپ میں ان سے کلیر شریف سے کی گئی گفتگو شائع ہوتی رہتی ہے اس عرس مبارک کے موقع پر بھی اس خصوصی اشاعت میں ان سے کی گئی تفصیلی گفتگو قارئین کرام پڑھیں گے۔
ولادت سے قبل والدہ محترمہ کو خواب میں پیارے نبیؐ کی زیارت 
آپ کے والد محترم سید عبدالرحیم المعروف سید عبداللہ کا نسب چند واسطوں کے بعد حضرت علی مرتضیؓ سے جا ملتا ہے جبکہ آپکی والدہ محترمہ حضرت بی بی حاجرہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کی بڑی ہمشیرہ تھیں۔ آپ 19 ربیع الاول 592 کو پیدا ہوئے۔ دایہ بصری بنت ہاشم کہتی تھیں جب جسم مبارک کو ہاتھ لگانا اور غسل دینا چاہتی تو ہاتھ کانپ جاتے تو حضرت بی بی حاجرہ نے کہا کہ پہلے وضو کر کے ہاتھ لگائو۔ تذکرہ نگاروں کے مطابق ولادت سے قبل والدہ ماجدہ کو پیارے نبیؐ کی زیارت ہوئی تھی اور انہوں نے احمد نام رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی۔ جبکہ حضرت علی المرتضیٰ نے خواب میں علی نام رکھنے کا کہا ان کے والد کو ایک بزرگ حضرت خضر علیہ السلام ملے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تمہارے ہاں فرزند تولد ہو تو علائو الدین نام رکھنا وہ اسلام کا نام سربلند کرے گا یوں آپ کا نام علائوالدین علی احمد مشہور ہوا۔ آپ پانچ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے۔ جس کے بعد خاموش اور غمگین رہنے لگے، کھانا پینا چھوڑ دیا اور کمسنی میں ہی حالت استغراق طاری رہنے لگا۔ 
گیارہ سال کی عمر میں  بابا فرید الدین گنج شکر نے بیعت کے شرف سے نوازا 
والدہ محترمہ ابتدائی دینی تعلیم عربی ، فارسی سے آراستہ کیا اور پھر حضرت ابوالقاسم گرگانی کے مشورے سے مزید تعلیم کیلئے آٹھ سال کی عمر میں ہرات سے اپنے بھائی حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے پاس اجودھن بھیج دیا۔ والدہ خود ساتھ آئیں۔ حضرت بابا صاحب نے آپ کو دیکھ کر سینے سے لگا لیا اور پھر حضرت مخدوم صابر پاک کے دِل پر داہنے ہاتھ کی تین انگلیاں مارتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تجھ سے جمال ذات کے ظہور ہونگے۔ حضرت بابا صاحب نے آپ کی تعلیم و تربیت شروع کی اور تین سال بعد فرمایا کہ علی احمد نے تین سال میں اتنے علوم ظاہری حاصل کئے جو دیگر بچے چھ سال میں حاصل نہ کر پائے۔ حضرت بابا صاحب نے آپ کو گیارہ سال کی عمر میں شرف بیعت سے نوازا۔ ان کی والدہ نے واپس ہرات کی اجازت طلب کی اور انہیں حضرت بابا صاحب کے پاس سونپتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا بہت شرم و حیا اور خوددار ہے۔ وہ کبھی اپنے منہ سے کوئی چیز نہیں مانگے گا، اسے بھوک پیاس کی تکلیف نہ ہو۔ حضرت بابا صاحب نے کہا کہ ان کی تسلی کی اور ان کے سامنے لنگر کا منتظم بنایا کہ غربا، مساکین درویشوں میں لنگر تقسیم کرنا۔ 
بارہ سال لنگر تقسیم کیا ، ایک دانہ نہ کھایا 
حضرت مخدوم صابر پاک نے بارہ سال لنگر تقسیم کیا لیکن خود ایک لقمہ نہ کھایا جب بھوک لگتی تو جنگل سے جنگلی پھل اور خودرو پودے کھا کر روزہ افطار کر لیتے، آپ پرجذب کی کیفیت طاری رہتی اور جلال کے باعث لوگ ان کے حجرہ کے نزدیک نہ جاتے۔ جب والدہ ہرات سے بیٹے کو ملنے آئیں تو انہیں ہڈیوں کا پنجر دیکھ کر ازحد رنجیدہ ہوئیں اور حضرت بابا صاحب سے شکایت کی آپ نے فرمایا کہ اسے تو آپ کے سامنے لنگر کا منتظم بنایا تھا پھر اس نے کھانا کیوں نہ کھایا اس سے دریافت کرو، والدہ نے پوچھا تو کہا کہ مجھے لنگر تقسیم کرنے کا کہا تھا، لنگر کھانے کا نہیں۔ بغیر حکم کے میں ایک دانہ بھی نہیں کھا سکتا تھا۔ حضرت بابا صاحب نے یہ سن کر فرمایا کہ ……علی احمد کو اللہ تعالیٰ نے کھانے کیلئے پیدا نہیں کیا یہ صابر ہے اور جہانوں میں صابر کے نام سے مشہور ہو گا۔ 
دلہن نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گئیں 
حضرت بی بی حاجرہ ہرات سے اجودھن آئیں اور اپنے بیٹے کی شادی کیلئے حضرت بابا صاحب کی صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہ کا رشتہ مانگا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ ہر وقت حالت جذب میں رہتا ہے شادی کرنا مناسب نہ ہو گا۔ ماں نے کہا کہ میرا بیٹا یتیم اور مفلس ہے اسی لیے انکار ہے۔ حضرت بابا صاحب نے ہاں کر دی اور 21 شوال 613 کو نکاح ہوا شب کو آپ کے حجرے میں والدہ نے روشنی کر کے دلہن کو لا کر بٹھا دیا۔ اسے دیکھ کر آپ سخت حیران ہوئے، دریافت کیا تو کون ہے؟ جواب دیا کہ آپ کی بیوی، فرمایا ایک دل میں دو تو نہیں رہ سکتے میں نے ایک کو جگہ دی ہے پھر دلہن کی طرف دیکھا جو آپ کی نگاہوں کی تاب نہ لا سکی اور بے ہوش ہونے کے بعد انتقال کر گئیں۔ 
قاضی تبرک نے حضرت بابا صاحب کا خط چاک کر دیا
’’سیرالاقطاب‘‘ کے مطابق حضرت مخدوم صابر پاک نے حضرت بابا صاحب کے پاس علیم اللہ ابدال کے ہاتھ خط تحریر اور صورتحال سے واضح کیا حضرت بابا صاحب نے ایک جامع فتوی آپ کے نام تحریر کیا کہ اسے قاضی تبرک کو دکھا دیں جب وہ فتویٰ قاضی تبرک کے پاس آیا تو اس بدبخت نے اسے چاک کر دیا۔ یہ چاک شدہ خط جب حضرت مخدوم صابر پاک کو ملا تو وہ اپنے مرشد کا چاک شدہ خط دیکھ کر جلال میں آگئے اور فرمایا اہالیان کلیر بہت جلد جل کر خاک ہو جائیں گے۔
کلیر شریف زلزلوں سے لرز اٹھا
اہالیان کلیر کی گستاخیاں بڑھتی جا رہی تھیں حضرت صابر پاک نے نماز فجر کے وقت آسمان اور زمین کی طرف پڑھ کر دم کیا تو زمین میں حرکت ہوئی اور صبح تک تین مرتبہ زلزلہ آگیا رئیس کلیر خوفزدہ ہوا اور قاضی تبرک سے کہا کہ ہمیں حضرت صابر پاک سے معافی مانگنی چاہیے اس نے پھر کہا کہ وہ جادو کے زور سے یہ کر رہے ہیں میرے پاس بھی ایک ساحرہ ہے جو زلزلے لا سکتی ہے چنانچہ اسے بلا بھیجا اس نے گیارہ مرتبہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کرائے جبکہ یہ زلزلہ نہیں تھا اس نے وہاں موجود لوگوں کے دلوں پر اپنے سحر کے ذریعے زلزلے کے جھٹکے محسوس کرائے تھے۔ بعدازاں جمعہ کی اذان تک سات مرتبہ زلزلہ آیا۔
دو سو سال تک جائے مدفن عوام کی نظروں سے اوجھل رہا
حضرت مخدوم علی احمد صابر کا وصال 13 ربیع الاول690 بمطابق23 مارچ1219 میں بادشاہ جلال الدین خلجی کے عہد میں حالت سماع میں ہوا۔ آپ کے جلال کے باعث آپ کا مدفن تقریباً دو سو سال تک عوام کی نظروں سے اوجھل اور پوشیدہ رہا۔ روایت کے مطابق کوئی بھی آپ کی جلالی طبیعت کے باعث آپ کے مرقد پر حاضر ہونے کی تاب نہ لا سکتا تھا اور قرب و جوار میں بھی لوگ قیام پذیر نہ ہوتے تھے اور یوں دو صدیوں کے دوران آپ کے مرقد مبارک کے آثار بھی معدوم اور لوگ جائے مدفن سے بے خبر ہوگئے۔
حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے بذریعہ کشف اجازت سے قبرمبارک کی نشاندہی کی، درختوں کے تنے گاڑے
حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی ہی کو آپ کے وصال کے دو سو سال بعد آپ کی قبر مبارک کے آثار اور مرقد بنانے کا اعزاز اور شرف حاصل ہوا حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رودلی میں اپنے دادا پیر حضرت خواجہ عبدالحق کے مزار اقدس پر جھاڑو دیا کرتے ایک روز نماز فجر کے وقت جھاڑو دے رہے تھے کہ ایک بزرگ ان کے قریب سے گزرے اور فرمایا کہ عبدالقدوس ہمارے مزار پر بھی جھاڑو دے دیا کرو، وہ بزرگ اتنا فرما کر انکی نظروں کے سامنے سے غائب ہوگئے، حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی ان سے یہ دریافت نہ کر سکے کہ آپ کون ہیں اور آپ کا مزار کہاں ہے؟ ایک روز حضرت خواجہ عبدالحق کے مزار پر حاضری کے وقت مزار سے حق حق کی صدائیں سنائی دیں تو انہوں نے وہاں مراقبہ کیا تو اپنے دادا پیر حضرت خواجہ عبدالحق کی روح مبارک کے واسطے سے حضرت مخدوم علی احمد صابر کی زیارت کی اور ان سے ان کی جلالیت کم کرنے اور قبر مبارک کی نشاندہی کی التجا کی جسے حضرت مخدوم صابر پاک نے قبول فرمایا اور قبرمبارک کی نشاندہی اور وہاں حاضری کی اجازت بخشی،چنانچہ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی مریدوں کو ساتھ لیکر کلیر شریف حاضر ہوئے اور پہلی مرتبہ آپ کی قبرمبارک کے نشان کو واضح کیا اور جنگل سے درختوں کے تنے کاٹ کر آپ کے مزار مبارک کی حدبندی کی اور درختوں کے ستون قبرمبارک کے گرد زمین میں گاڑے، اس نشاندہی کو مزید واضح اور محفوظ کرنے کے لئے لحد مبارک کے چار اطراف رسیوں کی مدد سے درختوں کی شاخیں اور پتے مضبوطی کے ساتھ باندھ دیئے۔ آپ نے وہاں قبرمبارک پر چند یوم قیام بھی کیا اور مریدوں کے ساتھ مل کر قرآن پاک پڑھا اور فاتحہ خوانی کی۔
قبرمبارک میں سوراخ کرکے اندر جھانکنے والے جوگی کا عبرتناک انجام
 آپ کی قبرمبارک کے حوالے سے ایک واقعہ مکتوبات فردوس الوجب، اور’’اقتباس الانوار‘‘ میں درج ہے جس کے مطابق ایک جوگی گھومتا پھرتا جب آپ کی قبرمبارک کے پاس آیا تو اس پر ہیبت طاری ہوگئی اس وقت وہاں بڑی تعداد میں پرندے بھی جمع تھے۔ اسے گمان گزرا یہ ہندو دھرم کا کوئی متبرک مقام ہو سکتا ہے اور اگر کسی مسلمان کی قبر ہوئی تو میں اسے برابر کر دوں گا، پھر اسے خیال گزرا شاید یہاں کوئی خزانہ دفن ہے، یہی سوچ کر اس نے اوزار کی مدد سے قبرمبارک میں سوراخ کیا اور اندر جھانکنے کے لئے سر اندر کیا تو گردن وہیں پھنس گئی ہر چند کوشش کی مگر سر واپس نہ نکل سکا، وہ خوف سے اسی حالت میں مر گیا اسی شب دور کی بستی کے ایک عقیدت مند کو خواب میں حضرت صابر پاک نے فرمایا میری قبر پر پہنچ کر ایک کتے کو جو وہاں گستاخی کا مرتکب ہوا ہے اسے دور کر دور۔ وہ عقیدتمند وہاں پہنچا تو جوگی کی گردن قبرمبارک میں پھنسی پائی جب اسے باہر نکالا تو بے ادبی کے مرتکب کا منہ کتے کی مانند ہو چکا تھا چنانچہ اسے دور پھینک دیا۔
حضرت مخدوم پاک نے اپنی نماز جنازہ خود پڑھائی
ایک روز آپ کے خلیفہ حضرت شمس ترک پانی پتی نے آپ سے سوال کیا تھا کہ حضرت مقام فنا اور مقام بقا کیا ہے تو جواب میں حضرت مخدوم صابر پاک نے فرمایا تھا کہ فنا و بقا کا راز کسی وقت آپ پر ظاہر ہو جائے گا۔ پھر ایک روز حضرت صابر پاک نے آپ سے فرمایا کہ ہم نے تمہیں ہفت اقلیم کا شاہ ولایت مقرر کیا ہے اب تم اپنے وطن پانی پت جانے کی بجائے چتوڑ گڑھ سلطان علائوالدین خلجی کی فوج میں جائو جو ایک عرصہ سے قلعہ کا محاصرہ کیے ہوئے ہے، تمہاری دعا سے قلعہ فتح ہوگا اور جس دن قلعہ ختم ہوگا اسی روز میرا بھی یوم وصال ہوگا، تمہاری لشکر میں موجودگی کی خبر ایک شخص سلطان کو دے گا جو تجھے بلا کر دعا کی درخواست کرے گا۔ قلعہ فتح ہونے کے بعد میری تجہیز و تکفین کے لئے فوری آ جانا حضرت شمس ترک پانی پتی چتوڑ گڑھ سلطان کے لشکر میں گئے اور عین اسی طرح ان کی نشاندہی ہوئی اور ان کی دعا سے قلعہ فتح ہوا تو حضرت شمس ترک پانی پتی کو حضرت مخدوم پاک کی  وصیت یاد آگئی انہیں پتہ لگ گیا کہ حضرت کا وصال ہو چکا ہے فوراً کلیر شریف پہنچے تو مرشد کو غسل و کفن دیا، ہزاروں لوگ جنازے کے لئے موجود تھے لیکن کسی میں بھی نماز جنازہ پڑھانے کی ہمت نہ تھی۔ حضرت شمس ترک پانی پتی جنازہ پڑھانے کے لئے مصلے پر کھڑا ہونا ہی چاہتے تھے کہ ایک نقاب پوش گھڑ سوار آیا، گھوڑے سے اترا اور  مصلے پر کھڑا ہو کر جنازہ پڑھایا جب واپس گھوڑے پر بیٹھنے لگا تو حضرت شمس ترک پانی پتی تیزی سے اس کے پاس پہنچے کہ حضور آپ کون ہیں اور آپ کا نام کیا ہے؟
تو نقاب پوش نے چہرے سے نقاب ہٹایا اور فرمایا کہ فقیر کا جنازہ فقیر ہی نے پڑھایا ہے، حضرت شمس ترک پانی پتی حیران رہ گئے کہ وہ نقاب پوش خود حضرت مخدوم صابر پاک تھے، انہیں حیران دیکھ کر حضرت مخدوم پاک نے فرمایا کہ شمس الدین حیران ہونے کی ضرورت نہیں اور اپنی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ مقام فنا ہے اور یہ مقام بقا ہے، یہ سنتے ہی حضرت شمس الدین بے ہوش ہوگئے اور بزرگ گھڑ سوار بھی لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگئے۔

ای پیپر دی نیشن