ناقابلِ عمل ہْوا ہمارا تحریری آئین

گزشتہ دو برس سے تقریباََ ہر روز کافی نوجوانوں سے یہ طعنے سننا پڑتے ہیں کہ میری نسل کے لوگ موقعہ پرست،بزدل اور منافق تھے۔ یہ خصلتیں ہماری نسل میں موجود نہ ہوتیں تو وطن عزیز ایوب،یحییٰ، ضیاء اور پرویز مشرف کے لگائے مارشل لائوں کی زد میں نہ آتا۔ سمجھا سمجھا کر تھک چکا ہوں کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے بطور دیدہ ور نمودار ہونے کے وقت میں ماں کی گود سے اترتو گیا تھا مگر ان کی انگلی پکڑے بغیر سڑک کراس نہیں کرسکتا تھا۔ جنرل یحییٰ کے مارشل لاء کے دوران پہلی بار پولیس سے کٹ کھانے اور جیل دیکھنے کی اذیت سے متعارف ہوا تھا۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء  دور میں مسلسل بیروزگار ہوتا رہا۔ پرویز مشرف کا دور اس حوالے سے بہتر تھا کہ نیویں نیویں رہتے ہوئے نوکری بچائے رکھی۔ موصوف میرے کالموں سے اگرچہ ناراض رہتے تھے۔ 
’’جمہوری‘‘ دور میں سب سے طویل بے روزگاری میں نے اکتوبر2018ء سے اکتوبر2023ء تک بھگتی ہے۔ ان دنوں دورِ حاضر کے سقراط ومنصور ہوئے خان صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہی نوکری سے نکلوایا تھا۔ اس کے باوجود ان کے خلاف اکتوبر 2021ء سے محلاتی سازشیں ہونا شروع ہوئیں تو اس کالم کے ذریعے مستقل المزاجی سے متنبہ کرتا رہا کہ حکومت سے برطرف ہوکر وہ ریاست اور معاشرتی توازن کے لئے ان ہی کے عہد کے مطابق ’’مزید خطرے ناک‘‘ ہوجائیں گے۔ دو ٹکے کے رپورٹر کی فریاد کسی نے سنی نہیں اور میں گوشہ نشینی کو راغب ہوگیا۔
عمران حکومت کے خاتمے کے بعد میری پرخلوص تمنا تھی کہ ان کی جگہ اقتدار سنبھالنے کے بجائے تحریک انصاف کی مخالف جماعتیں فوری انتخابات کی راہ اختیار کریں۔ وہ مگر ملک کو دیوالیہ ہونے  سے بچانے میں الجھ گئیں۔ دریں اثناء سابق وزیر اعظم نے ریگولر اور سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال اور شہر شہر جاکر فرمائی تقاریر کے ذریعے پاکستانیوں کی موثر تعداد کو یہ کہانی تسلیم کرنے کو مائل کردیا کہ ان کی حکومت امریکہ نے گرائی ہے۔ وہ ان کی قیادت میں پاکستان کو حقیقی معنوں میں آزاد اور خودمختار پالیسی پر عمل پیرا ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس حوالے سے ’’داستان سائفر‘‘ ان کے بہت کام آئی۔ اسے سناتے اور دہراتے ہوئے وہ مصر رہتے کہ ریاستی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان ’’میر جعفر وصادق‘‘ اگر امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو ان کی حکومت برقرار رہ سکتی تھی۔
لطیفہ یہ بھی ہوا کہ قمر جاوید باجوہ ’’میر جعفر‘‘ کا طعنہ سننے کے باوجود ان دنوں کے صدر علوی کی وساطت سے تحریک انصاف کے قائد کی ’’غلط فہمیاں‘‘ دور کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ دریں اثناء شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئی حکومت پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر پہنچ گئی۔ عالمی معیشت کے نگہبان اس ادارے نے عمران حکومت کے ساتھ 2019ء کا بجٹ تیار کرنے سے قبل حفیظ شیخ کی ذہانت سے تیار ہوئے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ پاکستان کو ’’معاشی استحکام‘‘ فراہم کرنے کے بعد اس معاہدے کو برقرار رکھنے کے لئے کڑی شرائط عائد ہوئیں۔ ان شرائط پر عملدرآمد سے عمران حکومت کی مقبولیت خطرے میں پڑی تو انہیں بھلادیا گیا۔ اب کی بار ان ہی شرائط کو مزید سخت کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں بجلی،پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا تو سادہ لوح عوام کوعمران خان کے فراہم کردہ ’’اچھے دن‘‘ یاد آنے لگے۔ 8فروری 2024ء کے روز ہوئے انتخاب کے دوران ان کی عقیدت ٹھوس انداز میں ہمارے روبرو آگئی۔ 
اپریل 2022ء کے بعد مگر ایک اور واقعہ بھی ہوا جس پر ہمارے سوچنے سمجھنے والوں نے کماحقہ توجہ نہیں دی۔ کہنے کو ہمارا آئین ’’تحریری‘‘ ہے جس میں ابہام ڈھونڈنا کافی مشکل ہے۔ پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کی حکومت بنانے،گرانے اور دوبارہ بنانے میں لیکن یہ ’’تحریری‘‘ آئین کسی کام نہیں آیا۔ اس کی بدولت پنجاب کئی مہینوں تک کامل انتشار کی زد میں رہا۔ بالآخر اعلیٰ عدالتوں نے تحریری آئین کی شق 63-Aکی تشریح کی تو چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ قرار پائے۔ عمران خان نے مگر قبل از وقت انتخاب لینے کی خاطر انہیں صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کو مجبور کیا۔ ایسا ہی عمل خیبرپختونخواہ میں بھی دہرایا گیا۔ دونوں صوبوں میں لیکن نئی صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب ’’تحریری آئین‘‘ میں دی مدت کے دوران ہونہیں پائے۔ ان کا انعقاد یقینی بنانے کے لئے 14مئی 2023ء کی تاریخ بھی عمر عطاء￿ بندیال کی سپریم کورٹ نے طے کردی تھی۔ اس کے باوجود انتخاب نہ ہوئے اور ہمیں فروری 2024ء  تک انتظار کرنا پڑا۔
’’تحریری آئین‘‘ اور سپریم کورٹ کے واضح انداز میں دیئے حکم پر عملدرآمد نہ ہونے نے جو نظیر قائم کی اس پر اندھی نفرت وعقیدت میں بٹے ہم صحافیوں نے بھرپور توجہ نہیں دی۔ بندیال کی عدالت کو بھی حکم عدولی کے جرم میں کسی کو ذمہ دار ٹھہرانے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اس کے باوجود ہمارے تبصرہ نگاروں کی اکثریت لوگوں کو فخر سے بتاتی رہی کہ ہماری عدلیہ اپنی خودمختاری دکھانے کو ڈٹ چکی ہے۔ نوجوان نسل کی جمہوریت سے محبت سوشل میڈیا پر سیلاب کی صورت امڈ رہی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج اس سیلاب کی توانائی اپنے ضمیر جگانے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ مجھ جیسے فرسودہ اور بکائو صحافی مگر ’’انقلاب‘‘ دیکھنے کے قابل نہیں رہے۔
پیر کی صبح اٹھ کر ’’نوائے وقت‘‘ میں اپنا کالم پڑھنے سے قبل صفحہ اوّل پر چھپی ایک خبر پر اچانک نگاہ پڑگئی۔ اس خبر نے اطلاع دی تھی کہ ایک ٹی وی انٹرویو دیتے ہوئے لاہور سے منتخب ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ نے ’’منی بجٹ‘‘ متعارف کروانے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ یقین مانیں یہ خبر پڑھتے ہی میرا دل اداس ہوگیا۔ چند ہی دن قبل اپنا ٹیکس ریٹرن فائل کیا ہے۔ اس کی تفصیلات پڑھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ میں اپنی کمائی کا تقریباََ 50فی صد ٹیکس کی صورت ادا کررہا ہوں۔ روزمرہّ اخراجات میں مسلسل کمی لانے کے باوجود مگر سفید پوشی برقرار رکھنا دشوار سے دشوار تر ہورہا ہے۔ اپنی فکر کے اظہار کے بجائے میں تحریک انصاف کے لاہور میں ہوئے جلسے پر تبصرہ آرائی میں مصروف ہوگیا کیونکہ قارئین کی خاطر خواہ تعداد نے اس کی فرمائش کی تھی۔
دوپہر کے قریب مگر میرے ٹیلی فون کی ’’ٹلیاں کھڑکنا‘‘ شروع ہوگئیں۔ خبر ملی کہ سپریم کورٹ کے 8 اکثریتی ججوں نے اپنا تفصیلی فیصلہ لکھ کر عوام کے لئے مشتہرکردیا ہے۔ یہ فیصلہ متقاضی ہے کہ آزاد حیثیت میں 8فروری 2024ء کے انتخابات کے دوران قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے منتخب ہونے والوں کو ’’تحریک انصاف‘‘ کے نمائندے تسلیم کیا جائے۔ یہ تسلیم کرلینے کے بعد الیکشن کمیشن انہیں ملے اجتماعی ووٹوں کے تناسب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کیلئے مختص نشستیں الاٹ کرے۔ ’’تفصیلی فیصلہ‘‘ منظر عام پر آنے کے باوجود مگر وزیر قانون اور الیکشن کمیشن اس پر عمل داری کے حوالے سے اپنی ’’مجبوریاں‘‘ گنوانا شروع ہوگئے ہیں۔ 2022ء میں جو منظر پنجاب اسمبلی کے حوالے سے بنا تھا اب قومی سطح پر دہرایا جارہا ہے۔
میں اس بحث میں الجھنے کی حماقت نہیں کروں گا کہ قانونی جنگ میں مصروف فریقین میں سے کسی ایک کو بہ جانب حق قراردوں۔ فقط یہ بات دہراکر ربّ کریم سے فریاد کروں گا کہ میرے دل میں امڈتے خدشے بالآخر غلط ثابت ہوں اور وہ بات یہ ہے کہ ہمارا ’’تحریری‘‘ آئین نظر بظاہر اپنے میں موجود مبینہ ابہام کی وجہ سے اب ’’قابل عمل‘‘ نہیں رہا۔ مجھے بزدلی کے طعنے دیتے ہوئے خدارا اس نکتے پر بھی ذرا غور فرمالیں۔

ای پیپر دی نیشن